عالمی اور ملکی منظر نامہ

سورج آ گ پھینک رہا ہے موسمیاتی تبدیلی اپنا جوبن دکھا رہی ہے جن جن علاقوں میں بجلی ناپید اور پانی نایاب ہے تو یہ متعلقہ اداروں کی سستی نہیں تو کیا ہے کہ جن کے فرائض منصبی میں یہ شامل ہے کہ صارفین کو یہ سہولیات میسر کریں‘ایک ہوتی ہے شارٹ ٹرم پالیسی اور ایک ہوتی ہے لانگ ٹرم پلاننگ۔ اس ملک کے سابقہ حکمرانوں نے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی‘ اقتدار میں اپنے دن پورے کرنے کیلئے شارٹ ٹرم پالیسیاں ہی بنائیں جن کا خمیازہ آج ہم مختلف اشکال میں بھگت رہے ہیں‘کبھی پانی کی کمی کی صورت میں تو کبھی بجلی کے شارٹ فال کے روپ میں۔
 ہماری دانست میں زبانی جمع خرچی کے علاہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے عوام کو کھل کر یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس ملک کے عوام کو درپیش مسائل کا کیا حل ہے ملک کو درپیش مسائل پر سیاسی پارٹیوں کو ضلعی سطح پر پبلک سیمینار کر کے عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کے پاس ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے کیا کیا منصوبے ہیں‘ خالی خولی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے سے یہ مسائل تھوڑی حل ہونے والے ہیں‘ عوام البتہ بجا طور پر سیاستدانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ غیر مبہم الفاظ میں کھل کر ان کو بتلائیں کہ ان کے پاس ملک کو درپیش مسائل کا کیا حل ہے اور وہ یہ بلیک اور وائٹ میں بتلائیں میڈیا کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ جس طرح امریکہ کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو آ منے سامنے بٹھا کر ان سے براہ راست ملکی مسائل کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں بالکل وطن عزیز کے سر کردہ سیاسی لیڈروں سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جاے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ ان میں کون کتنے پانی میں ہے۔
 لندن میں ن لیگ کی قیادت کے اس فیصلے سے کہ موجودہ حکومت اقتدار میں اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ فوری الیکشن کے موڈ میں نہیں‘ابھی یہ بات بھی واضح نہیں کہ اگر مستقبل میں الیکشن ہوتے بھی ہیں تو وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے یا پرانے روایتی طریقہ کار کے تحت‘الیکٹورل اصطلاحات کا ذکر بھی ہو رہا ہے پر کیا تمام سٹیک ہولڈرز ان پر راضی ہوں گے یہ بات بھی واضح نہیں ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر اگر موجودہ ڈھانچے کے مطابق انتخابات ہوتے ہیں تو پھر وہی بات ہوگی کہ ہارنے والا انہیں تسلیم نہیں کریگا اور پھر وہی سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ رہے گا‘ملکی حالات سے ہٹ کر بین الاقوامی منظر نامے پر بھی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں اور عالمی امن کو لاحق خطرات بدستور موجود ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے‘ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ یوکرین اور روس کے تنازعے کی صورت میں موجود ہے۔
 جہاں وہ ممالک جو پہلے غیر جانبدار تھے اب کسی نہ کسی گروپ میں ضرور شامل ہور ہے ہیں‘ فن لینڈ جس کی روس کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد ہے نیٹو میں شمولیت کے بارے میں سوچنے لگا ہے‘ جس پر روس نے سخت ردعمل دیا ہے‘یہ ملک روس کے ساتھ ماضی میں کئی جنگیں لڑ چکا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نے غیر جانبدار رہنے میں عافیت سمجھی۔ اب اگر یہ ملک نیٹو میں شامل ہوتا ہے تواس کا مطلب ہے کہ روس کیساتھ طویل سرحد رکھنے والا ملک نیٹو کا رکن بن جائیگا دوسرے الفاظ میں نیٹو تنظیم روس کی سرحد تک پہنچ جائے گی۔ا سطرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی منظر نامہ اس وقت کشیدہ ہے اور کسی بھی وقت اگر جنگ کا دائرہ یوکرین سے آگے دیگر یورپین ممالک تک پھیلتا ہے تو یہ ایک بہت خطرناک صورتحال کو جنم دیگا۔
ایسی صورتحال میں اب دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی طرح ا س سے متاثر ہوں گے اور اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کرنے والے ممالک بھی مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں‘ جنوبی ایشیائی ممالک نے ابھی تک روس یوکرین جنگ میں غیر جانبدار رہ کر اپنے آپ کو اس تنازعے سے دور رکھا ہے تاہم امریکہ اور نیٹو ممالک ہر گز ایسا نہیں چاہتے‘وہ کھل کر روس کو للکارنے کے حق میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ روس نے یوکرین کیخلاف جنگ کرکے جو مہم شروع کی یہ وہ ناکامی سے دوچار ہو‘دوسری طرف روس بھی چاہتا ہے کہ وہ یوکرین کو دوسرے ممالک کیلئے نشان عبرت بنائے کیونکہ روس کی سرحد پر نیٹو کے ہتھیاروں کا ڈھیر کسی بھی طرح قابل قبول نہیں‘ یعنی یوکرین روس اور نیٹو دونوں طاقتوں کے لئے جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اور دونوں طرف اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ جاری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرد جنگ کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے اور اس وقت دنیا پوری طرح دو بلاکوں میں تقسیم ہوئی ہے جہاں ایک طرف روس اور چین نے بساط بچھائی ہوئی ہے تو دوسری طرف نیٹو اور امریکہ نے دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ایسے میں جنوبی ایشیاء بھی اس کشمکش سے آزاد نہیں۔افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ نے یہاں پر اپنے مفادات کے حصول کے لئے کوششیں جاری رکھی ہیں اور اس نے خطے میں بھارت کو اپنے مفادات کا محافظ بنالیا ہے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ چین کے مفادات کو جہاں نقصان پہنچایا جا سکے اس کے لئے کوشش کی جائے۔ پاکستان میں چینی منصوبے بھی اس کا ٹارگٹ ہیں۔