پشاور شہر کے مغرب میں قریب 60 کلومیٹر کے فاصلے پر عالمی سرحد (پاک افغان طورخم بارڈر)‘ اگرچہ سیاحتی مقام نہیں لیکن وہاں کے معمولات اور سرگرمیاں خاصی دلچسپ ہیں اور اگر اِسے سیاحتی مقام کے طور پر بھی متعارف کرایا جائے تو ملکی و غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد لازماً ’طورخم‘ دیکھنے جائے گی اور قبائلی علاقوں کے بندوبستی ہونے کے بعد تو امن و امان کی صورتحال بھی بہت بہتر ہوئی گئی ہے۔لیکن ماضی کی طرح آج بھی ’طورخم‘ کو پراسرار رکھا گیا ہے جہاں کسی بلند مقام پر بیٹھ کر بغور دیکھا جائے تو علم و آگہی اور حیرت میں اضافے کے ساتھ اِس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے میں تردد نہیں رہے گا کہ یہ دنیا کی شاید سب سے زیادہ مصروف اور پرہجوم ’سرحدی کراسنگ‘ ہے۔
بہرحال طورخم اور اِس کے ذریعے آمدورفت سے متعلقہ خطرات اور صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک اور حکمت عملی وضع کی گئی ہے جس میں وفاقی وزارت داخلہ نے امیگریشن مراکز کے اندر پیدل چلنے والوں کی جامہ تلاشی کی ذمہ داری محکمہ کسٹمز اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو سونپ دی ہے۔ اِس سلسلے میں سیکرٹری داخلہ کی جانب سے اعلامیہ 9 مئی کو جاری کیا گیا تھا لیکن اِس پر عمل درآمد 12مئی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ نئی تفویض کردہ ذمہ داریوں کے مطابق محکمہ کسٹمز کو سرحد کے آر پار سفر کرنیوالے مزدور پیشہ افراد سمیت افغانستان سے آنیوالے مسافروں کے ساز وسامان کی سکیننگ اور جسمانی و جامہ تلاشی جیسی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ اِس سے قبل یہ کام نہیں ہو رہے تھے بلکہ کسی بھی عالمی سرحد پر اِس طرح کے سیکورٹی انتظامات کئے جاتے ہیں‘ پاکستان کی کسی بھی سرحد کراسنگ پر جانچ پڑتال کے مراحل خاطرخواہ سخت نہیں ہیں البتہ طورخم سرحد پر تو نرمی کی انتہا دکھائی دیتی ہے اور چند برس قبل تک بغیر سفری دستاویزات افغانستان سے آمدورفت ایک معمول کی بات تھی اور راقم الحروف کو جب بھی کسی صحافتی ذمہ داری کیلئے طورخم جانے کا موقع ملتا تو افغانستان میں بنا کسی ویزے یا سفری دستاویز دکھائے داخل ہو کر اور وہاں کے حکام سے بات چیت کے بعد دوبارہ پاکستان کی حدود میں آنے پر بھی کوئی پوچھ گچھ یا تلاشی نہیں ہوتی تھی بلکہ اِس پرہجوم عالمی سرحد پر کسی میلے کا گمان ہوتا تھا۔
وزارت داخلہ نے طورخم پر بے احتیاطی‘ بدنظمی یا کسی بھی وجہ سے غیرمحفوظ آمدورفت کو باضابطہ بنانے کے لئے ایف آئی اے اہلکاروں کو داخلے اور خروج کے مقامات پر مسافروں کی سفری دستاویزات چیک کرنے کی ذمہ داری دی ہے جو احسن قدم ہے۔ تاہم اندیشہ ہے کہ عام افغان جو سفری دستاویزات کے ساتھ پاکستان علاج معالجے یا سفری راہداری کیلئے داخل ہوتے ہیں کو اضافی جانچ پڑتال کی صورت پریشانیوں و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ وہ طبقے بالخصوص دوطرفہ تجارت کی آڑ میں ’ٹرانسپورٹرز اور تاجر (جنہیں افغانستان میں تجار کہا جاتا ہے)‘ ماضی کی طرح غیرقانونی طریقوں کا استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اس حوالے سے پیشگی انتظامات ضروری ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی تجارت کو جس حد تک تیز اور موثر بنانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں ان کے مثبت اثرات دونوں ممالک کی معیشتوں پر پڑیں گے اور اس کی آج کل جتنی ضرورت ہے شاید ہی کسی اور وقت ہو۔ اس لئے اس سمت اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔