فن لینڈ اور سویڈن، جو طویل عرصے سے غیر جانبدار اور غیر وابستہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھے، نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے دونوں کو اتحاد میں شمولیت کیلئے ہموار اور تیز عمل کا وعدہ کردیا ہے۔فن لینڈ کے صدر اور وزیراعظم نے اپنے ملک کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے نے ہمارے پاس اپنی سلامتی کیلئے نیٹو رکنیت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا۔ فن لینڈ کے پارلیمان میں 16 مئی کو اس معاملے پر رائے شماری ہوگی۔ سویڈن میں بھی پارلیمان کی اکثریت شمولیت کے حق میں ہے اور وہاں بھی شمولیت کے مضمرات پر غور جاری ہے۔ سویڈن کی حکمران سوشل ڈیموکریٹس پارٹی، جو سو سال سے ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے، کل اتوار کو نیٹو شمولیت پر اپنی روایتی مخالفت جاری رکھنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کرے گی۔
رائے عامہ کی تازہ ترین سروے کے مطابق فن لینڈ میں پچھتر فیصد اور سویڈن میں ساٹھ فیصد عوام کی اکثریت نیٹو میں شامل ہونے کے حق میں ہے۔ اگر فن لینڈ نے نیٹو میں شمولیت کیلئے درخواست دے دی تو پھر سویڈن بھی ایسا ہی کرے گا کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ پھر واحد سکینڈے نیوین ملک ہوگا جو نیٹو اتحاد سے باہر رہ جائے گا۔ واضح رہے باقی سکینڈے نیوین ممالک ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ پہلے ہی نیٹو میں بطور بانی رکن شامل ہوچکے ہیں۔فن لینڈ اور سویڈن کی جانب سے 1995 سے پہلے کی مکمل غیرجانبداری اور اس کے بعد فوجی طور پر غیر وابستگی چھوڑکر یورپی یونین میں شامل ہونے اور اب مغربی ممالک کے اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے۔
فن لینڈ طویل عرصے سے عسکری طور پر غیر وابستہ رہا ہے جبکہ سویڈن دو سو سال سے غیر جانبدار رہا ہے۔ تاہم یوکرین پر روسی جارحیت اور دیگر ممالک کو درپیش روسی جارحیت کے خطرے نے وہاں عوام اور حکومت کا ذہن نیٹو میں شمولیت کے حق میں تبدیل کردیا ہے۔تاہم چونکہ نیٹو میں نئے ارکان کی شمولیت کی منظوری نیٹو کے تمام تیس رکن ممالک کے پارلیمانوں کو دینی ہوتی ہے تو شمولیت کا یہ عمل ایک سال لے سکتا ہے بشرط یہ کہ نیٹو ممالک ہنگامی بنیادوں پر اس کو مکمل کرنے کا فیصلہ نہ کرلیں۔فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے ارادے اور نیٹو کی منظوری کے بعد اس عمل کی تکمیل تک کی درمیانی مدت میں یہ دونوں ممالک روسی جارحیت کے خطرے سے دوچار ہوسکتے تھے اس لیے دونوں چاہتے تھے کہ انہیں نیٹو میں شمولیت کی درخواست سے منظوری تک کے عبوری دور کیلئے سلامتی کی ضمانتیں دی جائیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ عبوری دور کیلئے انتظامات کیے جاسکتے ہیں جبکہ فن لینڈ کی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ خطرے کے سدباب کیلئے اس دوران فن لینڈ کی سرزمین پر نیٹو ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں منعقد کی جاسکتی ہیں۔
روس پہلے ہی نیٹو میں توسیع کو سرخ لکیر قراردے چکا ہے جس کے، اس کے مطابق، سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس کے بقول اگر دونوں ممالک نیٹو میں شامل ہوگئے تو یہ اس کی سلامتی کیلئے واقعی خطرہ ہوگا اور وہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے اور صورتحال کو متوازن کرنے کیلئے اقدامات لے گا جن میں وہ بالٹک خطے میں اپنی بری، بحری اور فضائی افواج میں اضافہ کرے گا اور یہاں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کے امکان کا جائزہ بھی لے گا۔اس تازہ پیش رفت کے بعد روس غالبا ًان دونوں ممالک پر حملہ نہیں کرنا چاہے گا کیوں کہ وہ امریکہ، برطانیہ، فرانس‘ جرمنی اور دیگر نیٹو ممالک کی مشترکہ عسکری طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ روس اور سویڈن مشترکہ سرحد نہیں رکھتے مگر روس اور فن لینڈ کی تیرہ سو کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے۔ روس کا سب سے بڑا شہر سینٹ پیٹرز برگ اس کی سرحد سے صرف ایک سو ستر کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے اور فن لینڈ کے قریب واقع جزیرہ نما کولا روس کیلئے تزویراتی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ روس کیلئے قدرتی فصیل اور اس کے شمالی بیڑے کا مرکز ہے۔امریکہ، جرمنی اور برطانیہ نے حملے کی صورت میں دونوں ممالک کی مدد کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے بلکہ برطانیہ نے ایک قدم آگے بڑھادیا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے دونوں ممالک کے ساتھ کسی بھی جارحیت اور قدرتی آفت کی صورت میں باہمی تعاون کے معاہدے کا اعلان کردیا ہے۔
اگرچہ یورپی ممالک کو نیٹو رکن ملک ہنگری، سلوویکیہ اور چیک ریپبلک کی مخالفت کے باعث روس سے پورے یورپی براعظم کو تاحال تیل درآمد پر متفقہ پابندیاں لگوانے میں رکاٹ کا سامنا ہے تاہم برطانیہ کی جانب سے یہ معاہدہ یوکرین جنگ کے تناظر میں سلامتی پر یورپی ممالک کی یکجہتی کی غماز ہے۔برطانیہ نیٹو ارکان میں سے یوکرین کی مکمل فوجی مدد اور روس کی جارحیت کا سخت مخالف ملک ہے اور نیٹو کی چھتری کے باہر ممالک سے اس طرح مشترکہ دفاع کا معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
ان سکینڈے نیوین ممالک کی نیٹو میں ممکنہ شمولیت اور عبوری دور میں برطانیہ کی جانب سے ان کی سلامتی میں مدد دینے کے معاہدے نے نیٹو سے باہر دیگر مغربی اتحادیوں جیسے جارجیا اور یوکرین کیلئے بھی امکانات پیدا کر دئیے ہیں۔ تاہم جرمنی اور فرانس اگرچہ یوکرین میں بدعنوانی اور غیر جمہوری قوانین کے موجودگی کی مثال دیتے ہوئے اور روس کے ساتھ عملی جنگ کی وجہ سے اس کی نیٹو رکنیت کے مخالف ہیں جبکہ سویڈن اور فن لینڈ بارے ایسی کوئی شکایات نہیں ہیں۔
فن لینڈ دفاعی بجٹ کو جی ڈی پی کا دو فیصد کرکے نیٹو رکنیت کی شرط پوری کر چکا ہے جبکہ سویڈن جلدایسا کرنے والا ہے اور یہ دونوں ممالک نیٹو سے باہر رہ کر بھی پہلے سے مغربی ممالک کے ساتھ فوجی، تکنیکی اور انٹلیجنس تعاون کرتے رہے ہیں۔ صرف ترکی نے دونوں ملکوں کی نیٹو میں شمولیت کی کھلم کھلا مخالفت کردی ہے۔واضح رہے چار سابق سوویت ریاستیں پولینڈ، ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھونیا پہلے ہی نیٹو میں شامل ہوچکی ہیں اور صدر پیوٹن نیٹو میں یوکرین، جارجیا، فن لینڈ اور سویڈن کو شامل کرنے سے اجتناب اور نیٹو کو 1991 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس لے جانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ نیٹو کی شق پانچ کے تحت کسی نیٹو رکن پر حملے کو پورے نیٹو پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور نیٹو ممالک اجتماعی سلامتی قانون کے تحت جارح کا مقابلہ متحد ہوکر مقابلہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کے مطابق اگر نیٹو کے کسی رکن کے علاقے پر عسکری حملہ ہوا تو ہم نیٹو کی مکمل طاقت کے ساتھ مشترکہ جواب دیں گے۔