امریکہ کے عزائم اچھے نہیں لگ رہے

امریکہ کی ابھی تک افغانستان میں دلچسپی ختم نہیں ہوئی۔ امریکہ کی فوج کے ایک اعلی ترین افسر کا یہ بیان کہ امریکہ افغانستان میں ایک مرتبہ پھر فوج کشی کر سکتا ہے اگر بقول اس کے وہاں دہشت گردوں نے پھر سر اٹھانے کی کوشش کی تو۔یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امریکہ کے ارادے اب بھی اچھے نہیں۔ وہ جب کبھی بھی کسی ملک پر حملہ کرنے کا پروگرام بناتا ہے تو پہلے وہ اس کیلئے بہانے تراشتاہے۔ کوئی جواز ڈھونڈتا ہے اس نے چند برس قبل عراق پر حملے کا جب پروگرام بنایا تھاتو کیا اس نے پہلے یہ پراپیگنڈہ نہیں کیا تھا کہ صدام حسین نے اٹیمی ہتھیار جمع کر رکھے ہیں بعد میں ثابت ہوا کہ وہ الزام کتنا جھوٹا تھا آج امریکہ چین کے درپے ہے اورروس کے ساتھ تو خیر اس کی پرانی دشمنی ہے ہی۔جو اس نے یوکرین میں بھی جاری رکھی ہوئی ہے اور معلوم نہیں کہ یہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے جس سے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔
 جرمنی کے چانسلر کا یہ کہنا بھی حقیقت ہے کہ روس کے صدر پیوٹن کے موقف میں کوئی نرمی نظر نہیں آرہی اور وہ یوکرین جنگ میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں۔ جہاں ایک طرف یوکرین جنگ جاری ہے وہاں دوسری طرف جارجیا کے ایک علیحدگی پسند علاقے نے روس کے ساتھ انضمام کیلئے ریفرنڈم کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک نئی پیش رفت ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ روس بھی اپنا کھیل کھل کر کھیل رہا ہے اور معاملہ محض یوکرین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ان تمام سابقہ سوویت ریاستوں تک پھیل سکتا ہے جو کسی وقت سوویت یونین میں شامل تھیں‘یہ حقیقت ہے کہ اب تک امریکہ کا جن ممالک سے پالا پڑا تھا وہ کمزور اور چھوٹے ممالک تھے۔
 روس کے ساتھ معاملے نے اب یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ جنگ یک طرفہ نہیں ہوگی بلکہ اس میں دونوں طر ف سے طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔روس دنیا میں تیل اور گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے اور وہ اپنی اس صلاحیت کو بھر پور انداز میں کیش کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت گندم اور تیل کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔دنیا کی سات مضبوط ترین معیشتوں پر مشتمل ممالک کے گروپ جی سیون نے بھی خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ خوراک اور توانائی کے ایک عالمی بحران کو جنم دے رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان غریب ممالک کو پہنچنے کا خدشہ ہے۔
جی سیون ممالک نے یوکرین میں موجود اناج کے ذخائر کی روسی ناکہ بندی ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔جرمنی کے بحیرہ بالٹک کے ساحل پر منعقدہ تین روزہ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں جی سیون ممالک نے چین سے بین الاقوامی پابندیوں کااحترام کرتے ہوئے یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کا ساتھ نہ دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس وقت ایک طرف اگر امریکہ نے روس کے تیل اور گندم کو عالمی مارکیٹ میں جانے سے روک دیا ہے تو ادھر روس نے یوکرین سے گندم کی ترسیل کو روکے رکھا ہے۔ اب بات ہو جائے ایک اور اہم معاملے کی۔
امریکی محکمہ دفاع نے گزشتہ سال یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ چین جوہری صلاحیت سے لیس کوئی نئی جدید ترین آبدوز تیار کر سکتا ہے۔ اب سیٹلائٹ تصاویر میں ممکنہ طور پر ایک نئی چینی آبدوز دیکھی گئی ہے سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں ایک چینی شپ یارڈ میں ایک نئی کلاس کی آبدوز دیکھی گئی ہے۔ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق قوی امکان ہے کہ یہ بالکل ہی نئی طرز کی یا 'اپ گریڈ کلاس کی جوہری صلاحیت سے لیس آبدوز ہے۔امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے گزشتہ برس نومبر میں ایک انٹیلیجنس رپورٹ جاری کی تھی، جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ چین آئندہ چند برسوں میں ایک نئی آبدوز تیار کر سکتا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق ورٹیکل لانچ ٹیوبز کی حامل ممکنہ آبدوز کروز میزائل فائر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو سکتی ہے۔
 اسی رپورٹ کے اجرا کے بعد سے عسکری تجزیہ کار اور انٹیلی جنس ایجنسیاں چینی سرگرمیوں کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا یہ ماڈل، کسی نئی آبدوز کا ہے یا کسی پرانی آبدوز کو جدید تر بنایا گیا ہے۔ یہ آبدوز چوبیس اپریل سے چار مئی تک پانی کی سطح پر آئی تھی مگر اس کے بعد سے یہ سمندر کے اندر ہی ہے اور ایک ہی مقام پر کھڑی ہے۔ سنگاپور سے وابستہ سکیورٹی ماہر کولن کوہ کے بقول چین کی ٹائپ 093 ہنٹر کلر طرز کی آبدوز کی نئی کلاس کے حوالے سے مبصرین میں کافی دلچسپی پائی جاتی تھی مگر فی الحال سیٹلائٹ تصاویر شناخت کیلئے ناکافی ہیں۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ تصاویر واقعی دلچسپ ہیں لیکن ان کے بارے میں حتمی رائے دینا قبل از وقت ہو گا، یعنی اس وقت امریکہ کیلئے دو درد سر ہیں ایک روس تو دوسرا چین اور دونوں نے مل کر امریکہ کو نکیل ڈالنے کی جو کوششیں شروع کی ہیں اس نے یقینا امریکہ کو پریشان کر دیا ہے۔جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے تو اس وقت تحریک انصاف اور مخلوط حکومت کے درمیان تعلقات کشیدگی کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں اور سیاست جس کو مفاہمت اور مصلحت کا کھیل سمجھا جاتا ہے کا نقشہ یکسر بدل گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا مثبت اشارہ ہے کہ اگر حکومت الیکشن کی تاریخ دے دے تو وہ انتخابی اصلاحات پر حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیارہیں۔
 دوسری طرف یہ خبریں آرہی ہیں کہ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ مقررہ مدت تک حکومت کرنے کی مجاز ہیں اور اگست2023کے بعدہی نئے الیکشن کا انعقاد کیا جا سکتاہے۔ تا دم تحریر دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کل کیا ہوگا اس کے بارے میں سر دست کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ان دونوں فریقین کے لئے اب اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں‘تب ہی تو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذاکرات کا دروازہ بالکل بند نہیں کرنا چاہئے اور میانہ روی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔