گرمی کا مو سم آتے ہی پہاڑوں اور جنگلات کی سیا حت کا مو سم شروع ہوتا ہے سیا حت اور جنگلات ایسے دو شعبے ہیں جن کے ساتھ ملکی ترقی اور قومی خو شحا لی منسلک ہے دونوں میں ایک بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کہ دونوں کو گنجائش اور استعداد کے پیما نے سے دیکھا جا تا ہے اس پیما نے کو انگریزی میں ”کیری انگ کیپے سیٹی“ کہا جا تا ہے جنگل اور چراگاہوں میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ کتنے جا نور وں کیلئے چارہ ہے اور کتنے درندوں کیلئے گوشت کے جا نور ملیں گے؟سیا حت کے شعبے میں یہ بات دیکھی جا تی ہے کہ کسی سیا حتی مقام پر ایک وقت میں کتنے لو گوں کیلئے رہنے کی جگہ اور کھا نے پینے کا انتظام ہے؟ انگریزوں نے 1860ء کے بعد مختلف اضلاع اور وادیوں کے گیزیٹر شائع کئے آپ کسی بھی گیزیٹر کو اٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں ایک ایک گاؤں کے بارے میں چار باتیں صراحت کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں۔
پہلی بات یہ ہے گاؤں میں باہر سے آنے والے کتنے لو گوں کیلئے رہنے کی جگہ ملے گی؟ کتنے مسا فروں کیلئے اناج، گوشت، انڈے اور دیگر اشیا ئے خوراک دستیاب ہو نگیں، کتنے مسا فروں کے گھوڑوں اور خچروں کیلئے چارہ اور بھو سہ ملے گا اور آخری بات یہ ہے کہ اگر ندی اور دریا گاؤں کے آس پا س ہے تو اس کو کس مو سم میں کس طرح عبور کیا جا سکتا ہے؟ اُس زما نے میں یہ معلو مات فو جی نقل و حر کت یا آفیسروں اور تحقیق کاروں یعنی ایکسپلو ررز کے دوروں کیلئے مر تب کی جا تی تھیں۔خیبر پختونخوا کے پہا ڑی علاقوں میں مقا می قبائل اپنے تجربے کی بنیا د پر جنگلا ت اور چرا گاہوں کے بعض حصوں کو لوگوں اور ما ل مو یشیوں کیلئے سال دوسال تک بند رکھتے تھے۔
مقا می زبانوں میں اس کیلئے نا غہ، سق اور دیگر الفاظ استعمال ہوتے تھے یہ اقدام خود رو پودوں اور جڑی بو ٹیوں کی حفاظت کیلئے اٹھا یا جا تا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے روایتی نظم و نسق میں بھی ہر کسی کو منہ اٹھا کر یا ما ل مویشی لیکر ہر جگہ آزادی کے ساتھ گھسنے کی اجا زت نہیں تھی کوئی ضابطہ اخلا ق اور کوئی نہ کوئی دستور، قاعدہ یا طریقہ کار مو جو د تھا البتہ اُس دور میں سیا حت کا عام چلن نہیں تھا اس لئے سیا حت کیلئے قواعد مر تب نہیں ہوئے۔
دنیا کے تر قی یا فتہ اقوام نے سیا حت کیلئے بھی جنگلات کی طرح گنجا ئش اور استعداد کے مطابق پا بند یوں کے اصول مرتب کئے ہیں مثلاً سپین میں غرنا طہ کے محلات جا نے والے سیا حوں کو میڈرڈ، بارسلونا اور دیگر شہروں سے ایک ہفتہ پہلے رجسٹریشن کر کے تاریخ، وقت اور نمبر لینا پڑتا ہے ایک دن میں کتنے سیا حوں کی گنجا ئش ہے اس کے حساب سے ٹوکن جاری کیا جا تا ہے سوئٹزرلینڈ‘اٹلی‘چین اور فرانس میں بھی مقبول ترین سیا حتی مقا مات کیلئے باقاعدہ رجسٹریشن کر کے پیشگی ٹوکن لینا پڑتا ہے اگر کسی مقا م پر 4000سیا حوں کی گنجا ئش ہے وہاں 6000کو آنے کی اجا زت نہیں ہے سیا حتی مقا مات کی اشتہار بازی میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر خواہش مند مُنہ اٹھا کر اندھیرے میں سیاحتی مقا م کا رخ نہ کرے۔
گزشتہ سال پنجا ب کے سیا حتی مقا م مری میں برف باری کا لطف اٹھانے کیلئے جا نے والے 29سیا حوں کو جا ن سے ہاتھ دھو نا پڑا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ گنجا ئش سے زیا دہ گاڑیوں اور مسا فروں کو مری جانے کی اجازت دی گئی کوئی حساب کتاب نہیں رکھا گیا گرمیاں آتے ہی ہنزہ‘ سوات‘ گلیات‘ مری‘ چترال‘ وادی کا لا ش اور دیگر سیا حتی مقا مات کیلئے قواعد و ضوابط کی ضرورت کا احساس ہر سال ہو تا ہے مگر اگلے سال تک کوئی اس پر غور نہیں کر تا اب کا م کہاں سے شروع کیا جائے؟ اس کا آسان فار مو لا ہے بنیا دی ضروریات اور سہولیات کی فہرست مرتب کریں انگریزی میں اس کو بیس لائن ڈیٹا کہتے ہیں۔
اس کی مدد سے آگے بڑھ کر سیا حوں کیلئے رجسٹریشن اور ٹو کن کا نظام متعارف کرائیں رجسٹریشن اور ٹو کن کے ذریعے جو سیاح سیا حتی مقا مات پر جائیں گے و ہ مطمئن ہو کر لو ٹیں گے۔ یعنی سیاحت کے حوالے سے گنجائش اور آنے والے لوگوں کی تعداد کو ضرور مدنظر رکھا جائے تاکہ سیاحوں کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اس شعبے سے بھرپور استفادہ کیا جائے دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو سیاحت کی بدولت ترقی و کامرانی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔