امریکہ کی ریشہ دوانیاں 

امریکہ افغانستان سے تو چلا گیا تاہم پاکستان اور خطے میں امن قائم ہونا اور اسکے نتیجے میں ترقی اور خوشحالی کا سفر تیز ہونا وہ نہیں دیکھ سکتا، ملک میں دہشت گردی کے جو واقعات گاہے بہ گاہے پیش آرہے ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ بلا ول بھٹو زرداری سرگرم ہیں اور جہاں ایک طرف وہ امریکہ کا دورہ کریں گے وہاں واپسی پر وہ چین بھی جائیں گے۔ان چند کلمات کے بعد اب آتے ہیں عالمی منظر نامے کی طرف جہاں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ سے مشرقی یورپ کے بعض ممالک کے ساتھ روس کی جو کشیدگی پیدا ھوہی ھے اس میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔اگلے روز روس اور رومانیہ نے ایک دوسرے کے ملک سے اپنے سفارت کار واپس بلا لئے ہیں یہ وہی رومانیہ ہے کہ جو کسی زمانے میں وارسا پیکٹ کے اندر اس وقت کی سوویت یونین کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک شیروشکر رہا۔ تاہم بات محض رومانیہ تک محدود نہیں رہی بلکہروس کے انتباہ کے باوجود فن لینڈ اور سویڈن، دونوں ممالک نے تصدیق کی ہے کہ وہ نیٹو کی رکنیت کے امیدوار کے طور پر یورپی فوجی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تحریری درخواست دیں گے۔واضح رہے کہ اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے فن لینڈ کو خبردار کیا گیا تھا کہ غیر جانبداری کاراستہ چھوڑنا غلطی ہو گی۔فن لینڈ کے صدر سلی نینیستو نے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ان کے ملک کی پالیسی میں یہ تبدیلی روس کے یوکرین پر حملے کے ردعمل کو ظاہر کرتی ہے۔دوسری جانب نیٹو کے وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ جلد فن لینڈ اور سویڈن کو اپنے اتحاد کا حصہ بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔فن لینڈ کی روس کے ساتھ 1,300 کلومیٹرسرحد ہے۔ وہ اب تک اپنے مشرقی پڑوسی ملک روس کی مخالفت سے بچنے کیلئے نیٹو اتحاد سے دور رہا ہے۔گزشتہ روز صدر نینیستو نے صدر پوتن کو اپنے ملک کے فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے فون کیا۔ اس رابطے کے بعد فن لینڈ کے صدر نے تبصرہ کیا کہ یہ ایک براہِ راست اور صاف شفاف کال تھی جو بغیر کسی تلخی کے انجام پائی۔ان کے مطابق ان کے ملک کیلئے ہمیشہ تناؤ سے بچنا اہم سمجھا جاتا تھا۔ فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ وہ ولادیمیر پوتن کو اپنے فیصلے سے متعلق صاف اور سیدھے انداز سے باخبر کرنا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق فن لینڈ کی یہ شہرت نہیں ہے کہ ہم خوفزدہ ہو کر کسی کونے میں خاموشی سے دبک جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فن لینڈ کی پارلیمنٹ کو اب اس فیصلے کی توثیق کرنا ہو گی۔ تاہم فن لینڈ کے وزیر اعظم سانا مارین نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر پہلے بھرپور عزم اور ذمہ داری کے ساتھ بحث کریں گے۔دوسری جانب سویڈن میں بھی حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ وہ اس سکیورٹی اتحاد کی حمایت کرتے ہیں اور ملک کی جانب سے درخواست دینے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔سویڈن کی جانب سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی درخواست دینے کا اعلان فن لینڈ کی جانب سے اتحاد میں شمولیت کے باقاعدہ اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔روس نیٹو اتحاد کو ایک سکیورٹی خطرہ سمجھتا ہے اور اس نے سنگین نتائج سے متعلق خبردار کیا ہے۔سویڈن دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا تھا اور وہ دو صدیوں تک عسکری اتحاد میں شمولیت سے بچتا رہا ہے۔اپنے ایک بیان میں سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کا کہنا تھا کہ وہ نیٹو اتحاد میں رکنیت کیلئے کام کریں گے جسے عوامی حمایت اور ملک کی حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اور اس سلسلے میں اگلے چند دنوں میں باقاعدہ درخواست دی جائے گی۔لیکن سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس جماعت نے کہا ہے کہ وہ ملک میں جوہری ہتھیار رکھنے یا نیٹو کے اڈے قائم کرنے کے مخالف تھے۔بعدازاں ایک پریس کانفرنس میں، وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا کہ ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ نیٹو اتحاد میں شامل ہوناسویڈن اور سویڈن کے عوام کی سلامتی کے لیے بہترین ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے سوشل ڈیموکریٹس کیلئے، یہ واضح ہے کہ کسی اتحاد میں عسکری طور پر شامل نہ ہونا سویڈن کے لیے اچھا تھا، لیکن ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ مستقبل میں یہ ہمارے لیے بہتر نہیں ہو گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سویڈن بالٹک خطے کا وہ واحد ملک ہوا جو نیٹو کا رکن نہیں ہے تو اسے خطرناک حالت میں چھوڑ دیا جائے گا۔نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ نیفِن لینڈ اور سویڈن دونوں کیلئے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، جبکہ نیٹو میں شامل ہونے کیلئے ان کی درخواستوں پر تمام رکن ممالک کی طرف سے توثیق کی جا رہی ہے۔ اس سارے عمل میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کہا کہ ان ممالک کا اس اتحاد کا حصہ بننے کا عمل، ایک غیر واضح صورتحال کی طرح نہیں ہو سکتا کہ جہاں ان دونوں ممالک کی حیثیت غیر واضح ہو۔ تاحال اگر چہ روس کے صدر نے فِن لینڈ کے اس اقدام پر کوئی خاص دھمکی نہیں دی ہے تاہم روسی وزارت خارجہ نے اشارہ دیا ہے کہ اس پر ردعمل ظاہر کیا جائے گا یا جوابی کاروائی ہو گی۔روس کے فن لینڈ کو بجلی کی سپلائی معطل کرنے کے فیصلے کو اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ جوابی کاروائی کس طرز کی ہو سکتی ہے۔ فن لینڈ کا کہنا ہے کہ روس اسے ملکی ضرورت کی مناسبت سے بجلی کا تقریباً دس فیصد فراہم کرتا ہے اور وہ توانائی کے اپنے متبادل ذرائع سے اس کمی کو پورا کرسکتا ہے۔ان تمام حالات کو دیکھ کر یہ کہنا قرین از قیاس ہے کہ یور پ کا نقشہ بدل رہاہے اور روس نے یوکرین پر جو حملہ کیا ہے وہ تاریخ کا رخ موڑنے والا لمحہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا رہنے والے ممالک سویڈن اور فن لینڈ اگر اب نیٹو کے رکن بنتے ہیں تو اس سے نیٹو تنظیم روس کی سرحد پر پہنچ گئی ہے۔ اب جس طرح روس نے کہا ہے کہ وہ جوابی کاروائی کاحق رکھتا ہے تو وہ فن لینڈ کے ساتھ اگر جوہری میزائل نصب کرتا ہے تو اس سے ہمہ وقت یورپ پر ایک خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ اس وقت ایک طرف روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے تو دوسری طرف بحیرہ اسود میں سنیک آئی لینڈ پر بھی قبضہ کیا ہے جہاں سے وہ رومانیہ کے مزید قریب ہوگیا ہے اور جزیرے پر میزائل دفاعی نظام نصب کرکے روس امریکہ اور مغربی ممالک کو مسلسل پریشان کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ روس بھی امریکہ اور نیٹو کے ساتھ برابر کا ٹکر لینے والا ملک ہے اور اس نے یوکرین پرحملہ کرنے سے قبل پوری تیاری کر رکھی تھی اور اب بھی اس کے پاس کئی ایسے کارڈ ہیں جن کو وہ وقت آنے پر استعمال کر سکتا ہے۔