انتخابی اصلاحات

سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی کے اس ماحول میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کا یہ بیان امید افزا ہے کہ اگر حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیتی ہے تو ان کی پارٹی انتخابی اصلاحات کیلئے بات چیت پر آمادہ ہو سکتی ہے، ملک اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا حل جلد سامنے لانا ضروری ہے۔ مگر انتخابات سے قبل یہ بھی ضروری ہے کہ انتخابی عمل پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے، افہام و تفہیم سے ایسی انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے، جو ملک میں صاف شفاف انتخابات یقینی بنا سکیں، اور جن کی غیر جانبداری، شفافیت اور معیار ہر طرح کے شبہات سے بالاتر ہو، حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی چا ہئے اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ اصلاحات کے کام کا آغاز کرنا چاہئے، لیکن اس معاملے میں ماضی کے ناکام تجربات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات کیلئے پچھلے چند برسوں میں متعدد کوششیں کی گئیں، سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹیاں کام کرتی رہیں، مگر عملی طور پر کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی، سابق دور حکومت میں ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کا ڈول ڈالا گیا، مگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹوں کے معاملے میں سیاسی جماعتوں میں واضح اختلافات پائے جاتے ہیں، اگرچہ سابق حکومت اس حوالے سے قانون سازی کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی،مگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی اصلاحات کو قبول نہیں کیا گیا، قابل قبول انتخابات کیلئے ایسا سسٹم بنانے کی ضرورت ہے، جو جامع اور سب کیلئے قابل قبول ہو۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کو جن مسائل نے گھیر رکھا ہے، سیاسی بے چینی اس آگ پر تیل ڈالنے کا سبب بن رہی ہے، معیشت روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ سے مہنگائی میں انتہائی اضافہ ہو چکا ہے، اگر آئی ایم ایف سے  نئی قسط مل گئی تواس  کے بعد ہی باقی ممالک اور اداروں سے مزید قرض ملنا ممکن ہو جائے گا، جس سے بعض ادائیگیاں اور چند ماہ کی درآمدات کیلئے زر مبادلہ مل جائے گا، مگر یہ سلسلہ کہاں تک یوں ہی چلایا جا سکتا ہے۔ ملک کو ان حالات سے نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو بصیرت سے کام لینا ہوگا، ضد چھوڑ کر معاملات کو سنبھالنے کیلئے سبھی کو اپنی اپنی پوزیشن سے نیچے آنا ہوگا۔ بعض حلقوں کے مطابق چند مہینوں نے  یہ واضح کردیا ہے کہ یہ حالات کسی دلدل کی طرح ہیں‘ حکمران جماعت کی قیادت کا وہ حصہ، جو معاشی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے، عام انتخابات کا عندیہ دینے میں دوسروں سے آگے ہے، پی ٹی آئی پہلے ہی انتخابات کے مطالبے پر کھڑی ہے، امکان یہی ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی موجودہ حالات میں انتخابات کو ایک بہتر آپشن سمجھتی ہیں۔ چنانچہ عملی طور پر اس جانب بڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے، ان حالات میں شاہ محمود قریشی کی جانب سے انتخابی اصلاحات پر بات چیت پر آمادگی حوصلہ دلاتی ہے، اور موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کی امید نظر آنے لگی ہے۔پی ٹی آئی کے سربراہ کی جانب سے اسلام آباد کی طرف مارچ کی جس تاریخ کا اعلان کیا گیا اس میں بھی چند دن ہی رہ گئے ہیں، ایسے احتجاجی مارچ سیاسی تلخی میں اضافہ کا باعث ہی بنتے ہیں، حکومتی اتحادی بالخصوص مسلم لیگ ن کو یہ سیاسی مضمرات مدنظر رکھنے چاہئیں اور عام انتخابات کے حوالے سے اصلاحات کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ کیونکہ آج تک ہوتا آیا ہے کہ انتخابات کے بعد ہارنے والی جماعت نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اسکے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے اب اس سلسلے کو ختم کرنا ضروری ہے کیونکہ ان حالات میں ملک مزید سیاسی بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ سیاسی بحران کے معاشی اثرات زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اس لئے انتخابی اصلاحات کے لئے رابطوں کا سلسلہ جس قدر جلد شروع ہو اتنا ہی بہتر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں کے لئے جمہوریت کو مستحکم کرنا فائدہ مند ہے اور جمہوریت کا استحکام انتخابی عمل پر اعتماد سے مشروط ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی قائدین کم از کم انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ایک پیج پر آ جائیں اس سے ملک اور سیاسی جماعتوں سب کا مفاد وابستہ ہے۔