شہر اُداس اورگلیاں سُونی

 اگر یہ مہینہ جون جولائی کا ہوتا تو دل کو صبر آ جاتا کہ ان دنوں تو اسی طرح کی گرمی ہوتی ہے۔اب یہ کراچی تو ہے نہیں۔ جہاں اپریل کا مہینہ سخت ترین گرمی کا ہوتا ہے۔یہ تو پشاور ہے۔یہاں تو گرمی آتے آتے آتی ہے۔ اکیس مئی کو ہر سال گرمی صحیح معنوں میں سٹارٹ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ کیا اب کے تو اس سال اپریل ہی میں شہری تپش کے ہاتھوں اُف اُف کرنے لگے تھے۔گرمی نے وہ تماشا دکھلایا کہ کبھی تو بہت گرمی پڑتی اور ان گزشتہ مہینوں میں بونداباندی او رموسم خوشگوار ہو جاتا۔موسم کی یہ بے وفائیاں او رآشنائیاں پہلے کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ مگر یہ کانوں میں ضرور پڑا کہ یہ کہانی صرف پشاور ہی میں دہرائی نہیں جا رہی۔پوری دنیا میں موسم کی یہ انگڑائیاں جاری ہیں۔دنیا بھر میں زمین گول گول گھوم کر اور سورج کے گرد الگ سا چکر لگا کر کچھ اور ہی طرح سے انگڑائیاں لے رہی ہے۔جس سے لاوے تو شکر ہے کہ نہیں پھوٹے مگر گرمی کی شعاعیں خوب نکلی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ اب کے موسم میں اس سال گرمی کے دنوں میں دس درجے تپش کا اضافہ رہے گا۔ اگر اس سال ایسا ہے تو اگلے سال کیا ہوگا اور پھر اس کے آگے کے سالوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ہم نے ماحول کو گرم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ موسمیاتی گرمی اور گلوبل وارمنگ کو ہم نے خود پیدا کیا ہواہے۔ہمارے بچے آنے والے سالوں میں ہمیں بددعائیں نکالیں گے کیونکہ ہم نے اپنے ماحول کی پروا ہی نہیں کی۔گرمی ان دنوں ایسے ہے کہ دیوانہ کئے دیتی ہے۔کوئی تو لسی کے جگ کے جگ بنا کر اندر معدے میں اُنڈیل رہاہے اور کوئی سر پر پانی ڈال کر اس گرمی کو بھگا رہاہے۔ہر طرح سے اپنے آپ کو تسلی دینے میں مصروف ہے۔اے سی کو دیکھتے ہیں کہ دیوار کے ساتھ بس لگا ہی ہوا ہے۔اس کو آن کرنے کی طاقت ہر کس و ناکس میں نہیں ہے۔ بعض لوگ ہی جو اس کے خرچوں کے نخرے اٹھا سکتے ہیں وہی اس کا سوئچ آن کریں گے۔ ورنہ تو روز بروز مہنگی ہوتی بجلی کی وجہ سے بس اے سی کمرے کے اندر دیوار پر اگر لگا ہے تو لگا رہنے دو۔ہر آدمی ان دنوں قبل از وقت پسینوں میں نہایا ہوا ہے۔بلکہ ہر آدمی اپنے اپنے الگ سے پسینوں میں نہایا ہوا ہے۔کیونکہ وہ پریشان ہے کیا کرے کہاں خرچہ کرے او رکہاں ہاتھ کھینچ کر کے اور کہاں ہاتھ کو مکمل پیچھے کھینچ لے ”مشتاقِ دردِ عشق جگر بھی ہے دل بھی ہے۔کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ“۔ حیران ہوں کہ پچاس سال پیچھے تو بجلی کے پنکھے ہی نہ تھے اور سو سال پہلے تو دنیا بھر میں بجلی بھی نہیں تھی۔ یہ سو سوا سو سال پہلے بجلی آئی ہے۔وہ لوگ جانے گرمی میں کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔ پھر ہم ہیں کہ بجلی ہماری رگوں میں دھنس چکی ہے اور ہمارا اس کے بغیر گزارا کرنے کا تصور ہی نہیں۔ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ بجلی نہ ہو اور گرمی میں ہم آرام سے بیٹھے ہوں۔گلیاں سونی ہیں اور شہر ویرانی کا منظر پیش کر تا ہے۔ ہمارا شہر تو گرم شہر ہے۔ ٹھنڈے علاقوں کی سیر کے لالچ ان دنوں ہمارے دلوں میں عجب انداز کی بے قراری پیدا کر رہا ہے۔ عید پر گرمی کے عالم میں لاکھوں شہری گلیات اور سوات کے نواحی علاقوں کی سیر کو گئے۔وہ بات کہ جون جولائی ہوتا تو صبر آ جاتا کہ یہی مہینے گرم ہیں مگراب تو مئی میں ایسا موسم ہے کہ جون جولائی کی آب ہوا اور فضا کا احسا س جاگ جاتا ہے۔ جانے جون میں کیا گل کھلنے والا ہے۔ پھول بھی تو اس بہار میں پورے نہیں کھلے۔جانے یہ موسمیاتی تبدیلیاں کیا رنگ دکھلائیں گی کہ اس بار بہار بھی کھل کر نہیں آئی۔ وہ شعر یاد آتا ہے کہ ”بہار آئی بھی لیکن کوئی کلی نہ کھلی۔عجیب رنگ کا موسم مرے چمن میں رہا“۔اب تو پتے ہیں تو وہ بھی درختوں پر ساکن ہیں ہوا بند ہے حبس کا عالم ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کیونکہ یہ سلسلہ ابھی بہت آگے جائے گا۔