سال دوہزاراُنیس میں ’پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)‘ نے مصباح الحق کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بناتے ہوئے اُن کے کندھوں پر دہری ذمہ داری ڈالی اور بھرپور اختیارات بھی دیئے لیکن اِس کے باوجود مصباح الحق کی زیر تربیت کرکٹ ٹیم خاطرخواہ نتائج نہیں دے پائی۔ اِسے تمام اہم دوروں میں شکست ہوئی، آسٹریلیا میں بُری طرح ناکامی کا منہ دیکھا جبکہ برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں بھی شکست کھائی۔ واحد نمایاں کامیابی جنوبی افریقہ میں حاصل کی باقی تمام فتوحات بنگلہ دیش‘ ویسٹ انڈیز‘ زمبابوے اور سری لنکا جیسی ٹیموں کے خلاف تھیں۔ لگتا ہے کہ برطانیہ مصباح الحق والے پاکستان کے فیصلے سے بہت متاثر ہوا‘ تبھی اِس نے میک کولم کو منتخب کیا ہے۔ امید ہے کہ اس کا نتیجہ پاکستان سے مختلف نکلے گا۔ بہرحال برطانیہ کے اس حیران کن اقدام سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ موجودہ حالات کو کتنا سنجیدہ لے رہا ہے اور کوئی غیر معمولی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ اب تک جن عہدیداروں نے اس تقرری کے حوالے سے بات کی ہے وہ اپنے فیصلے سے بہت مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اطمینان کتنے دن برقرار رہتا ہے؟ کیا میک کولم واقعی ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔دنیائے کرکٹ پر خاموشی طاری ہے۔ صرف ایک سمت انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کا شور و غوغا ہے لیکن پاکستانیوں کے لئے اس سے کہیں زیادہ اہم تو کاؤنٹی چیمپیئن شپ ہے‘ جہاں ٹیم گرین کے کھلاڑی کارکردگی کے کمالات دِکھا رہے ہیں تو دوسری طرف اسی برطانیہ کے کرکٹ حلقوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایشیز اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے دورے پر زبردست ناکامی نے برطانیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر سے لے کر ٹیسٹ کپتان تک‘ سب نے ایک‘ ایک کرکے عہدے چھوڑے اور یوں پورا انتظامی ڈھانچہ (سیٹ اپ) ہی بدل گیا۔ نئے کرکٹ سیزن کے آغاز پر ان عہدوں پر نئے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا۔ روبرٹ کی ڈائریکٹر بنے اور توقعات کے عین مطابق بین سٹوکس کو ٹیسٹ کپتان بنایا گیا، لیکن جب ہیڈ کوچ کی تقرری کی باری آئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قرعہ فال اچانک برینڈن میک کولم کے نام نکلے گا۔ نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کو پورے چار سال کے لئے برطانیہ کا نیا ٹیسٹ کوچ بنایا گیا ہے‘ جو ایک حیران کن فیصلہ ہے کیونکہ میک کولم نے ٹیسٹ تو ایک طرف‘ کسی فرسٹ کلاس میچ میں بھی کبھی کوچنگ نہیں کی۔ ان کے کوچنگ کیریئر پر واحد تجربہ تین سال سے انڈین پریمیئر لیگ میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور اس کی ذیلی ٹیم ٹرنباگو نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ کا ہے۔ نجانے کیوں لگتا ہے کہ کولکتہ سے برطانیہ کا پرانا تعلق ہے۔ ماضی میں ٹریور بیلس بھی نائٹ رائیڈرز کی کوچنگ چھوڑ کر ہی انگلینڈ آئے تھے۔ اگر میک کولم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کوچ بنائے جاتے تو شاید کسی کو حیرت نہ ہوتی لیکن ٹیسٹ کرکٹ فارمیٹ کے بارے میں تو کچھ عرصہ پہلے خود میک کولم کہہ چکے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹیسٹ کرکٹ کو کھا جائے گی۔ اس سے ان کی سمجھ بوجھ اور ویژن کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ میک کولم کو سال دوہزاراُنیس میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کا کوچ بنایا گیا اور ابتدائی دو سال اُن کی ٹیم ”پلے آف مرحلے تک“ بھی نہیں پہنچ سکی۔ پچھلے سال یعنی دوہزاراکیس میں بھی کارکردگی کا بُرا ہی حال تھا۔ ابتدائی چھ میچز میں صرف ایک کامیابی بلکہ آٹھ مقابلوں میں صرف دو کامیابیوں کے ساتھ وہ اخراج کے قریب ہی تھا کہ ہمت پکڑ لی اور آخری سات میں سے پانچ مقابلے جیت کر اگلے مرحلے میں پہنچ گیا۔ یہاں کولکتہ نے نہ صرف ایلیمنیٹر بلکہ دوسرا کوالیفائر بھی جیت لیا اور فائنل میں پہنچ گیا لیکن یہاں چنئی سپر کنگز آڑے آگئے اور کولکتہ فائنل ہار گیا۔ رواں سال کولکتہ کی ٹیم ایک بار پھر پرانی ڈگر پر ہے اور مسلسل پانچ شکستوں کے بعد اِنہیں ”پلے آف“ کے بھی لالے پڑگئے ہیں۔ اس لئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کولکتہ کی ”معجزاتی کارکردگی“ میک کولم کے انتخاب کی وجہ بنی لیکن آخر برطانیہ انتظامیہ کس بات پر قائل ہوئی ہے؟ یہ بات ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔