پانی کی قلت سے جہاں دیگر مسائل پیدا ہورہے ہیں وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آبی بحران کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قلت آب سے خوراک کی کمی (غذائی عدم تحفظ) کا خطرہ ہے۔ ان حالات میں حکومت کیلئے مشکل ہو جائے گا کہ وہ مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے کیونکہ یہ معاشیات کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کسی شے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہو تو اس کی قیمت میں اضافہ ناگریز ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ملک کے اندر پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں ماہرین آگاہ کررہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کے ان 23 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جنہیں گزشتہ دو برس سے خشک سالی کا سامنا ہے۔ ’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘ نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ جن دیگر 22 ممالک کو خشک سالی کا سامنا ہے ان میں افغانستان‘ ایران‘ عراق اور امریکہ شامل ہیں۔ رپورٹ میں 2050ء کے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تب تک مختلف خطوں اور ممالک کو پانی کی قلت کی وجہ سے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور ان سے بچنے کیلئے کون سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ایک عرصے سے نئے ڈیم بنانے کی بہت سی تجاویز تو زیر غور ہیں اور کئی منصوبوں پر کام بھی جاری ہے لیکن تاحال کوئی ایسا بڑا منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا جس سے آبی بحران جیسے ہر سال بڑھتے ہوئے مسئلے پر حقیقت میں قابو پایا جاسکے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے ملک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوام میں مقبول ہونے کے بعض ایسے اعلانات کرتی ہے جن کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں ہوتا اور بعدازاں اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام بیانات سے خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ ماضی میں کئی منصوبے متنازعہ صورت اختیار کرنے کے بعد بند کرنے پڑے‘ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان جس ہم آہنگی اور یک جہتی کی ضرورت ہے وہ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں! ایسے حالات میں عوامی مسائل بس سیاسی تقریروں میں ہی حل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہورہا ہے‘ مطلوبہ تعداد میں ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پانی کے کمی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا بھی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے‘اس وقت بھی مختلف کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال ہیں‘ ملک کے کئی بڑے شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چھ سے چودہ گھنٹوں تک پہنچ گیا ہے جبکہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں بجلی کی طلب بڑھنے سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔ بجلی کی دو سے تین گھنٹے کی بندش کے علاوہ بار بار تعطل (ٹرپنگ) بھی جاری ہے جس سے شہری شدید کوفت کا شکار ہیں۔ پشاور کے شہری علاقوں میں چھ جبکہ دیہی علاقوں میں سولہ گھنٹے جیسی طویل بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال شدید عوامی ردعمل کی صورت بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو یا پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل‘ ان سب کا حل ایک ہی ہے
کہ حکومت اس مسئلے پر انتہائی سنجیدگی سے توجہ دے اور اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ایسی قومی آبی پالیسی بنائی جائے جس میں ملک کی تمام انتظامی اکائیوں سے تکنیکی ماہرین شامل ہوں‘ ساتھ ہی آئینی ترمیم کے ذریعے یہ اصول بھی طے کرلیا جائے کہ کوئی اگلی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریگی جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی قلت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے آنیوالے برسوں میں یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ اس پر قابو پانے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کیلئے ”قومی آبی پالیسی“ تشکیل دینی چاہئے جو وقت (حالات) کی ضرورت (تقاضا) ہے‘آبی مشکلات کا حل نکالنا کوئی آسان اور مختصر مدت میں طے ہونے والا مرحلہ نہیں بلکہ یہ ایک طویل المدتی لائحہ عمل ہوتا ہے۔