سڑک پر مداری تماشا دکھلاتے تھے۔ماچس کی ڈبیا بتلاتے۔پھر جب اس کو کھول کر اس میں سے کپڑے کی بنی ٹکیا نکالتے ہم دیکھتے۔نوٹ کرتے کہ اب یہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ مگر حیرت کی انتہانہ رہتی۔وہ اس چھوٹی سی ڈبی میں سے ایک ٹکی نکالتا۔اس کو کھولتا تو اس میں سے گزوں کے حساب سے سفید کپڑا تہہ کیا ہوا ملتا۔مگر یہ بھی سنا ہے کہ پچھلے وقتوں میں ایسے کپڑے بنتے تھے کہ پورا تھان دیا سلائی کی اس خالی ماچس میں سما جاتا۔خیر ناقابلِ یقین باتیں ہیں۔ مگر کرتے ہوں گے کچھ نہ کچھ۔شاید آنکھوں کا دھوکا ہو یا آنکھوں کا نہ ہو تو نگاہوں کا فریب ہو سکتا ہے۔مگر کچھ تھا۔ معلوم نہ پڑتا کہ ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا۔اندازہ پکا ہے کہ کمال تھا او رکیا تھا۔اب بھی وہ ماچس کی ڈبیا کہیں کھلتی ہوگی اور اس میں سے کپڑے کا پورا تھان تہہ کیا ہوا ملتا ہوگا۔ اس لئے بھی یقین آتا ہے کہ ماچس کی ڈبی نہ سمجھیں اب تو پوری کتابوں کی لائبریری موبائل فون کے دو انچ میموری کارڈ میں سما جاتی ہے۔بلکہ اب تو مشرکہ سٹڈی کا ز مانہ بھی رخصت ہوا۔ پہلے جب امتحان سر پر ہوتا تو دوستوں کے ساتھ مل کر کسی باغ میں جا دھمکتے۔ کیونکہ اس طرح مل کر مطالعہ کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔کسی موضوع پر ایک دوسرے کو سنتے اور ایک سے ایک کوسیکھنے کو بہت کچھ ملتا۔ کیونکہ گھر کے ماحول میں شور شرابے اور بچوں کی دھما چوکڑی کی وجہ سے پڑھنے کو تو پڑھ لیتے
مگر سمجھنے کو کہاں جاتے۔اس کیلئے تو اشد تنہائی اور شدید اکلاپا ضروری ہے۔پھر جائنٹ سٹڈی میں ایک دوسرے کی دیکھا داکھی بھی سیکھنے کی کوشش کرتے۔ یوں اچھا سمجھ آجاتا۔کیونکہ کوئی پیچھے آواز دینے والا موجود نہ ہوتا۔ کوئی نہ کہتا کہ روٹیاں لے آؤ ختم ہو جائیں گی۔ کوئی یہ حکم نہ دیتا کہ جاؤدہی لاؤ گرمی کے موسم میں جلدی ختم ہو جاتا ہے۔گھر کا سودا سلف لانے کے لئے کتاب کو غصے میں اچانک بند کر کے باہر گلی کی راہ نہ لیتے۔اب تو وٹس ایپ گروپ نے مشترکہ مطالعہ کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔خدا کرے پورے پاکستان سے دو سو یا اڑھائی سو سٹوڈنٹ ہوں جنھوں نے ایک دوسرے کو زندگی بھر ایک بار بھی دیکھا نہ ہو اور نہ ہی آئندہ کہیں دیکھنے کا امکان ہو۔پھر وٹس ایپ گروپ کے مطالعہ میں لڑکیا ں او رلڑکے دونوں بھاری تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ پھر اگر کسی ایک رکن نے ذرا سی بھی بداخلاقی کا ایک جملہ لکھ دیا تواس کو ایک سیکنڈ میں نکال باہر کر دیا جاتا ہے۔اس کے جواب میں مقررہ تعدادی اراکین کے ا س فریم میں نیا ممبر تیار بیٹھاہوتا ہے کہ اسے اس گروپ میں شامل کرلیا جائے۔ اس گروپ میں اگر آپ کورس سے متعلق کہہ دیں کہ فلاں کتاب چاہئے تو وہ آپ کو پی ڈی ایف کی شکل میں پہنچ جاتی ہے۔پھر اس کتاب کو پڑھنے کیلئے نہ تو انگلیوں سے لعاب لگا کر صفحے الٹنے کا جھنجھٹ ہے اور نہ ہی کوئی دقت ہے۔بجلی کی تیزی کے ساتھ ورق الٹتے جائیں اور کتاب کے آخری پیج پر پہنچ جائیں۔اس طرح کسی امتحان کی تیاری کرنے والے اس گروپ کے کسی سٹوڈنٹ نے اپنے پاس بہت سی کتابیں محفوظ کی ہوتی ہیں۔ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے سے موبائل میں مطالعہ کرنا اگر اچھا نہیں تو قطعاً برا بھی نہیں۔
بہت شوق ہے تو وہ کتاب فوٹو سٹیٹ مشین والے کے پاس کھڑے ہو کر وہیں دکان میں اس کے موبائل وٹس ایپ میں بھجوا کر اس کا اپنے سامنے پرنٹ نکلوا لیں او راپنے پاس سنبھال لیں۔ورنہ موبائل کی میموری میں پہنچا کر محفوظ کر لیں۔اب تو گویا لائبریری جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرنا پڑتی۔بس گروپ میں تحریری ریکوئسٹ کر دیں کہ فلاں کتاب درکار ہے۔وہ اگر کسی کے پاس ہوئی تو بھیج دیں گے۔آج کل کے سٹوڈنٹ بہت ہوشیار او رچالاک ہو چکے ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کر تا جاتا ہے طلباء وطالبات بھی پہلے سے زیادہ زیرک ہو ئے جاتے ہیں۔جگنو کو دن کے وقت بھی پرکھ لیتے ہیں۔ موٹی موٹی ڈکشنریاں بھی منگوا لیتے ہیں۔ غرض اپنے مضمون کے متعلق جو جو مشکلا ت ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی طریقے سے حل کرلیتے ہیں یا حل کروا لیتے ہیں۔ پھر کسی ٹاپک پر اگر سب نہیں تو اکثر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔اگر نہیں آتا تو سوال پوچھتے ہیں ان کو کوئی نہ کوئی جواب دے ہی دیتا ہے۔کسی ٹیچر کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔پھر اس کی مدد بھی لیتے رہتے ہیں۔ بلکہ امتحانی پرچے بھی منگوالیتے ہیں اور ہاتھ سے تحریر کردہ نوٹس بھی دستیاب کروا لیتے ہیں۔یعنی ایک طرح سے طلبہ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا ایسا ذریعہ ہاتھ آیا ہے کہ اگر وہ اس سے فائدہ اٹھائیں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ماضی کے مقابلے میں طلبہ کیلئے زیادہ آسانیاں اور سہولیات اس وقت موجود ہیں اب یہ طلبہ پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔وہ جنھوں نے اب تک اپنا گروپ نہیں بنا رکھا میں ان سٹوڈنٹس کو مشورہ دوں گا اگر وہ لوگ کسی امتحان کی تیاری میں ہیں یا کسی کلاس میں پڑھ رہے ہیں۔وہ اپنا وٹس ایپ گروپ بنالیں اس سے بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اپنی کلا س کی حد تک تو گروپ بنے ہوئے ہیں۔لیکن اس میدان کو تھوڑا پھیلا دیں اور دوسرے سٹوڈنٹس کو بھی دیکھ داکھ کر اس فورم میں شمولیت کا موقع دیں‘ تاکہ ایک دوسرے کی معلومات اور علم سے استفادہ کرتے ہوئے طلبہ اپنی کامیابیوں میں اضافہ کر سکیں۔