خوش آئند فیصلہ

موجودہ معاشی حالات میں حکومت نے غیر ضروری اور پرتعیش اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی لگانے کا جوفیصلہ کرلیا ہے اسے بلا شبہ ایک احسن قدم قرار دیا جا سکتا ہے، گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی معاشی تشویش ناک صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ شرکاء نے معاشی مشکلات سے نمٹنے کیلئے سخت فیصلے کرنے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں روپے کی بے قدری میں کمی آئے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران سے نمٹنے کیلئے غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کردی اور اس فیصلے کا فوری طور پر اطلاق ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ اُڑانے سے بہتر ہے کہ پہلے ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ یہ بہت اہم پیش رفت ہے کہ وزارت تجارت اور ایف بی آر نے اشیائے تعیشات کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تیاری کرلی۔ وزیراعظم کی منظوری کی سمری موصول ہونے پر امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترامیم کی جائیں گی اور بڑی گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز، کاسمیٹکس سمیت دیگر اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جائے گی‘درآمدات پر پابندی کا مقصد درآمدی بل کم کرنا ہے۔ اس اقدام سے ماہانہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ زرمبادلہ کی بچت متوقع ہے اور روپے کی قدر میں استحکام و بہتری لانے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی ہوچکی ہے جو اس وقت 22 ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں اور صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں جب کہ ڈالر 200 روپے سے بھی مہنگا ہوگیا ہے۔ اب کچھ تذکرہ افغانستان کا ہوجائے جہاں سرکردہ طالبان رہنما سراج الدین حقانی کے یہ الفاظ حالات کی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں کہ طالبان اب امریکہ کو اپنا حقیقی دشمن نہیں سمجھتے۔ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ افغانستان یورپی ممالک سے بھی دوستی کا خواہاں ہے،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ قومی اور بین الاقوامی امور میں بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں تاکہ امریکہ یا ان کے کے کسی اور دشمن کو یہ موقعہ نہ مل سکے کہ وہ دنیا کی راے عامہ کو ان کے خلاف کر سکیں‘ انکے یہ بیانات خوش آئند ہیں افغانستان کی سٹریٹیجک لحاظ سے اس خطے میں آج بھی امریکہ کیلئے بہت اہمیت ہے۔ روس اور چین کا مقابلہ کرنیکیلئیاسے خطے میں یقینا ایسے ممالک کی ضرورت ہے جو امریکی پالیسیوں کو یہاں پروان چڑھا سکیں۔ اب اگر ملک کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائیں تو یہ بات درست ہے کہ انتخابات میں اترنے سے قبل انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔پر کیا ان اصلاحات پر پبلک فورمز میں ایک سیر حاصل بحث کی ضرورت نہیں تھی۔پہلے بھی بند کمروں میں اس حوالے سے کام ہوا تاہم اس کے نتائج تسلی بخش سامنے نہیں آئے۔اس لئے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی عمل کا بااعتماد ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والے وقتو ں میں انتخابات میں ہارنے والوں کی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی روش ختم ہو۔