دھوم دھڑکے ڈھول تماشے

ان دنوں گرمی کے کرشمے ہیں۔دن ڈھلے شام کا عالم ہو۔ اس وقت کہیں آؤٹنگ کرنے کو جی کرتا ہے۔پھر سڑکیں سارا دن ویران رہتی ہیں۔ شام کے قریب سڑکوں کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ہر گاڑی چار یا تین اور دو پایوں کی ہو سڑکوں پر چابی والے کھلونوں کی طرح دوڑتی ہیں۔مگر جتنی چابی بھری ہوتی ہے یہ اتنا ہی دوڑتی بھاگتی ہیں۔ ہر ایک کی اپنی چال ہے۔جیسے شہر کی سرزمین نہ ہو شطرنج کے گیم کی بساط ہو۔جہاں ہر مہرہ کی اپنی ایک مقررہ چال ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ اس نے بھاگنا نہیں ہوتا۔ شام ہو اورکل اتوار ہوپھرجیسے ایک انار ہو او رسو بیمار ہوں۔ کہاں جایا جائے او رکہاں نہ جائیں۔ کیونکہ گرمی کے اس موسم میں بھی شادی ہالوں کی رونق دگنا نہیں تین گنا زیادہ ہو چکی ہے۔اب وہاں دن چڑھے بھی اس تپش میں ولیمہ کیلئے شہریوں کی آوت جاوت شروع ہو چکی ہے۔کوئی کسی بارات میں شرکت کو بھاگے جاتا ہے اور کوئی باراتی جلوس میں شریک ہونے کو لڑکے کی کار کے ساتھ ساتھ اپنی کار رش میں بڑھا رہاہوتا ہے۔ہفتہ کے دن شام کو خوب چہل پہل ہوتی ہے۔ون وے میں سامنے سے بھی کاریں اور موٹر بائیک آ رہے ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا۔پھر کوئی اپنی ذمہ داری قبول ہی کیوں کرے۔جس کا بس جہاں چلے وہاں سے نکلے بلکہ نکل بھاگے۔ ایک تنگ سی گلی میں دو باعمر اشخاص گزر رہے تھے ایک صاحب کی آواز کان میں آئی۔ وہ دوسرے شخص سے فرمارہے تھے۔”موٹر سائیکل بہت زیادہ ہو گئے ہیں“۔مجھے حیرت بھی ہوئی او رہنسی بھی آئی۔ اس لئے کہ بات سو فیصد سچ بھی تھی اور صورتِ حال کے عین مطابق تھی۔کیونکہ میں بھی اس وقت اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ ان دو پایوں کے زمینی جہازوں سے اب کوئی گلی کوچہ تک محفوظ نہیں۔ بعض موٹر سائیکل سوار گزرتے ہیں اورگزر جاتے ہیں او رفراٹے بھرتے ہوئے جاتے ہیں

مگر دیکھو تو دوبارہ آتے ہیں۔مقصد یہ ہوا کہ بغیر کسی کام کے فضول ہی چکر لگاتے ہیں۔کوئی سودا سلف نہیں لینا ہوتا او رنہ ہی کسی نے بلایا ہوتا ہے اور نہ تو یہ خود کے کسی کام سے جاتے ہیں۔ انھی کی وجہ سے شہر کا ماحول خرابی کا شکار ہے۔مگر کوئی کب تک گھر میں بیٹھا رہے۔ یہی شام کا وقت ہے جب دھوپ کی کاٹ میں کمی واقع ہوتی ہے۔کوئی کب تک گھر میں قید رہے۔تازہ ہوا کا یہی وقت ہے جب موسم میں کچھ خنکی آنا شروع ہوتی ہے۔تب شہر کے رہنے والے اپنی اپنی حبس مٹانے کو گھر کی چار دیواری سے باہر آتے ہیں۔ یوں ان میں ریفریش ہو کر ایک نئی روح گھوم جاتی ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت تمیز کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑدیا جائے اور بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کو ہلڑ بازی اور شور شرابے سے کام لیا جائے۔فضول کی چیخ و پکار کی جائے۔ اب بائیک کا قصور بھی گویا معاف ہے۔کیونکہ بعض بے فکرے لڑکے بالے رکشوں میں بھی بیٹھ کر اور اونچی آواز میں گانے سنتے ہوئے جاتے ہیں۔پھر بعض نوجوان رکشے کے اندر سے آدھا باہر نکل کر کھڑے ہو تے ہیں۔پھر ایک پر تو بس نہیں۔ پیچھے آنے والے رکشے میں بھی یہی تماشا ہو رہاہوتا ہے۔ان کو بھلا کون روک سکا ہے اور کس نے روکا ہے۔سب جانے دیتے ہیں۔ چپ سادھ لیتے ہیں۔چپکے سے کوشش کرکے سائیڈ سے نکل جاتے ہیں۔ جس بائیک والے کے ساتھ اس کے بیوی بچے ہوں وہ بہت کڑھتا ہے کہ میں کس شہر میں آن پھنسا ہوں۔اب غور کریں تو بندے کو ایسا تو ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی خوشی کو اتنا زیادہ نہ کیا جائے کہ دوسروں کوجینے ہی سے بیزار کر دیا جائے۔راستے بند کردینا او رسرعام دھمال ڈالنا یہ کاہے کی  خوشی ہے۔راستہ جو بند ہو اس کو عوام کی سہولت کیلئے رکاوٹیں ہٹا کر کھول دیا جائے۔ یہی سوک سینس ہے یہی اخلاق ہے۔شہری کا اس شہر کا باشندہ ہو کر اس شہرکا خیال رکھنااگر سوک سینس کہلاتا ہے تو معافی چاہتا ہوں وہ یہاں نہیں پایا جاتا۔