مقبوضہ کشمیر: انسانی حقوق

بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اِن خلاف ورزیوں کا نیا دور مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت تبدیل کرنے سے ہوئی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متصادم اقدام ہے۔ رسل ٹریبونل کے بیان میں مسئلہ کشمیر کو آبادکاروں کی استعماریت‘ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی بدترین مثال قرار دیا گیا ہے۔ بھارت کشمیریوں کے انسانی و سیاسی حقوق تسلیم نہیں کرتا اور کشمیریوں کو کچلنے کیلئے قتل‘ تشدد‘ عصمت دری اور سیاسی حلقوں غصب کرنے جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی شناخت پر قابض ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہمیشہ ایسا کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ مسلط کیا جاتا ہے جو بھارت حکومت کی  بولی بولے اور انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی کو جائز سمجھے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادیوں نے اپریل دوہزاربائیس میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ بھارت کو ”مخصوص تشویش کا ملک“ قرار دیا جائے۔ مذکورہ ادارہ آزاد و خودمختار اور امریکی کانگریس کا حصہ ہے جو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ 1998ء کے تحت تشکیل دیا گیا ہے اور اِس کی حالیہ رپورٹ نے بھارت کو مسلسل تیسرے سال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے ذمہ دار قرار دیا ہے اور بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ جیسے امتیازی قوانین کے ذریعے مذہبی حقوق اور آزادیوں کی شدید خلاف ورزی کو اجاگر کیا ہے۔ مذہبی آزادیوں سے انکار اور اقلیتوں کے خلاف نفرت ”ہندوتوا“ کے انتہا پسندانہ نظریے کے مطابق ہے جس کا مقصد ہندو انتہاپسندوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے تمام غیر ہندو مذاہب کے لوگوں سے بھارت کو صاف کرنا ہے۔ کثرتیت اور مذہبی تنوع کی تمام اقسام کو ختم کرنے کا مقصد بھارت کی مذہبی ثقافت کا جز ہے جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے اور جس میں خاص طور پر مقبوضہ کشمیر‘ شمال مشرقی ریاستوں‘ راجستھان‘ گجرات‘ یوپی اور مہاراشٹر میں انسانیت کے خلاف جرائم‘ نسل کشی اور نسلی صفایا جیسے جرائم شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری نسلی مذہبی نفرت کا مشاہدہ کیا گیا ہے

جو اگست دوہزاراُنیس سے جاری ہے اور اِس کا سلسلہ وسیع ہو رہا ہے۔ بھارتی حکومت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کی شناخت ختم کر دے اور اِس ہدف کے حصول کیلئے ڈیموگرافی اور صدیوں پرانے زمین کی ملکیت کے نمونے میں تبدیلی کی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔بھارت غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کے بغیر اِسے چلا رہا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنگھا کے ذریعے نئی دہلی کی طرف سے براہ راست حکومت کی جارہی ہے۔ مقننہ میں کشمیری موجودگی کو مصنوعی طور پر محدود کرنے کی تازہ ترین کوشش جموں و کشمیر میں انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کا اعلان ہے۔ مودی حکومت کے حد بندی کمیشن نے ہندو اکثریتی جموں میں اسمبلی نشستوں کی تعداد بڑھا دی ہے جبکہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی موجودہ تعداد میں صرف ایک نشست کا اضافہ کیا ہے۔ کشمیر میں صرف ایک کے مقابلے میں جموں میں چھ نشستوں کا اضافہ ہندو برادری کو پانچ نشستوں کا واضح فائدہ دیتا ہے۔ متعصب کمیشن نے کشمیری تارکین وطن کو دو مخصوص (ریزرو) نشستیں بھی اضافی طور پر دی ہیں جو زیادہ تر ہندو ہیں اور ”کشمیر فائلز“ جیسی نفرت انگیز فلموں کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کے خلاف تضحیک آمیز کردار کشی کی مہم الگ سے جاری ہے۔ نسبتاً اعتدال پسند سیاسی رہنما محبوبہ مفتی کے مطابق انتخابات سے پہلے ہی مسلم کمیونٹی کو بے اختیار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ سال دوہزاردو میں مقبوضہ کشمیر کی حکومت اور بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے سال 2026ء تک حلقوں کی حد بندی کو مؤخر کر دیا تھا۔ اگست دوہزاراُنیس میں آرٹیکل 370 اور 35اے کی منسوخی سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے موجودہ انتخابی حلقوں کی غیر قانونی حد بندی کا اقدام کیا۔ آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق جموں میں ایک شخص اب انتخابی حد بندی کی وجہ سے کشمیر میں ایک اعشاریہ تین افراد کے برابر ہے جو وادی میں رہنے والے چھپن فیصد کشمیریوں اور چوالیس فیصد جموں باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔

نہایت ہی چالاکی سے اکثریت کی تبدیلی کا مقصد واضح طور پر متنازعہ خطے کے غیر قانونی الحاق کو بھارتی یونین میں قانونی شکل دینے کی کوشش ہے اور دھاندلی والے انتخابات کے ذریعے بی جے پی کو اقتدار میں لانا ہے۔ حلقوں کی نئی حد بندی کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جموں میں ایک لاکھ پچیس ہزار بیاسی افراد کیلئے ایک حلقہ بنایا گیا ہے جبکہ مقبوضہ وادی کشمیر میں ایک لاکھ چھیالیس ہزار پانچ سو تریسٹھ افراد پر مشتمل حلقہ ہے اِس طرح مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ نو ہزار چھ سو اکیس افراد کو الگ حلقوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ حلقوں میں ہیرا پھیری بی جے پی حکومت کا دیرینہ حربہ رہا ہے کیونکہ اس نے اکثر جموں خطے کی کم نمائندگی کی اِس طرح حلقہ بندی سے بڑھا دیا ہے۔ حد بندی کی یہ مشق بذات خود بڑی خرابی یعنی بدنام زمانہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ دوہزاراُنیس کی پیداوار ہے جس نے غیر قانونی طور پر ’آئی آئی او جے کے (مقبوضہ کشمیر)‘ کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس قانون کے تحت ’آئی آئی او جے کے‘ اسمبلی میں لائن آف کنٹرول کے پار کے علاقوں کیلئے مختص چوبیس نشستوں کو چھوڑ کر نوے نشستیں ہوں گی۔ اقوام متحدہ کے حکم کے مطابق رائے شماری کیلئے حلقہ بندیوں پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ ماضی میں فوج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں جعلی رائے شماری کروائی گئی۔ مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے فیصلہ سازوں کی بدنیتی پر فاروق عبداللہ جیسے بھارت نواز رہنماؤں کو بھی تنقیدی تبصرہ کرنے پر مجبور کیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ ”موجودہ ہندوستان گاندھی کے بھارت سے زیادہ ایک ایسا ہندوستان ہے جو کشمیریوں کو مسلح بغاوت کی طرف لے جا رہا ہے۔“ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں درحقیقت انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جنہیں ختم کرنے کیلئے جلد از جلد بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت ہے۔