موسمیاتی تبدیلی اور غذائی قلت 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے کہا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے اور عالمی وبا کی وجہ سے خوراک کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ یہ صورت حال غذائی قلت کے شکار بچوں کیلئے تباہ کن شکل اختیار کر سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خوارک کی انتہائی قلت کے شکار بچوں کی زندگیاں بچانے کیلئے علاج کے اخراجات میں 16 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق ریڈی ٹو یوز تھیروپیٹک فوڈ یعنی آر یو ٹی ایف کے لیے درکار خام اجزا کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ان بچوں کی زندگیاں بچانے پر بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق اگر اس شعبے میں اگے چھ ماہ کے لیے مزید سرمایہ جمع نہ ہوا، تو چھ لاکھ بچے اپنے اس انتہائی ضروری علاج سے محروم ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ انتہائی غذائی قلت کے شکار بچوں کو توانائی سے بھرپور پیسٹ دیا جاتا ہے، جو مونگ پھلی، تیل، شکر اور دیگر اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔یونیسیف کے مطابق اس خصوصی خوراک کا ایک ڈبہ 150 پیکٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جو انتہائی ناکافی غذائی حالت کے شکار کسی بچے کے لیے چھ سے آٹھ ہفتے تک کافی ہوتا ہے۔ یوں یہ بچے اس صورتحال سے باہر نکل جاتا ہے۔ یہ ڈبہ اوسطا 41 ڈالر کا تھام تاہم اب اس کی قیمت میں 16 فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق موجودہ صورت حال میں اس اضافی قیمت سے نمٹنے کیلئے یونیسیف کو 25 ملین ڈالر درکار ہوں گے۔عالمی ادارے کے انتباہ کے مطابق فوڈ سکیورٹی پر دیگر کئی عوامل بہ شمول ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی خاصا دبا ؤہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ غذائی قلت کا شکار بچے تو ہوئے ہی ہیں تاہم ساتھ عام طور پر بھی غذائی قلت کا مسئلہ عالمی سطح پر مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہے۔قوی امکان ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں زمین کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو، جس کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ہماری دنیا کا درجہ حرارت بہت تیزی کے ساتھ اس حد تک بڑھ رہا ہے، جہاں تک نہ پہنچنے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ دنیا بھر کے موسمیاتی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے وقت کے مقابلے میں ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ اڑتالیس فیصد امکان ہے کہ یہ اب سے لے کر 2026 تک کسی بھی وقت عارضی بنیادوں پر ممکن ہو۔ یہ دنیا کے لئے انتہائی خطرناک پیش رفت ہے۔برطانوی میٹرولوجیکل آفس کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس بات کا 93 فیصد امکان ہے کہ سن 2026 تک دنیا کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا جائے۔ اس بات کا بھی 93 فیصد امکان ہے کہ اب سے لے کر 2026 تک ہر سال، تاریخ میں اب تک کا گرم ترین سال ہو۔1800 سے اب تک زمین کا درجہ حرارت 1.1 ڈگری بڑھا ہے۔ سن 2018 میں جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں زمین کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سے زائد اضافے کے خطرناک ممکنہ نتائج بیان کیے گئے تھے۔موسمیاتی تبدیلی اور غذائی قلت کے درمیان براہ راست تعلق کے حوالے سے ماہرین کو کوئی شک نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ ہیں وہاں پر زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے واضح رہے کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں غذائی قلت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔