دیر آ ید درست آ ید

وزیراعظم صاحب نے جس نئی امپورٹ پالیسی کا اگلے روز اعلان کیا ہے۔ کاش کہ اس قسم کی پالیسی کا اعلان ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے 50 برس پہلے کیا ہوتا ہم غریب ملک ہیں کیا ضرورت تھی ہمیں ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ سامان تعیش پر خرچ کرنے کی اور اپنے زرمبادلہ ضائع کرنے کی۔ہمیں ذرا بھر بھی خیال نہیں کہ ایک طرف تو ہم ہر سال عالمی مالیاتی اداروں کا دروازہ کھٹکا کر اس سے قرضہ مانگتے آ رہے تھے پر دوسری طرف  ایسی اشیاء بھی درآمد کرنے کا سلسلہ جاری رہا جن کی ہمیں ضرورت نہ تھی۔کیا ضرورت  ہے ہمیں لمبی چوڑی کاروں اور لگژری جیپوں کو امپورٹ کرنے کی کہ جب آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری توجہ دیگر ہم مسائل کی طرف ہو اور ملک کی اکثریت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل ڈھونڈا جائے بجائے اس کے کہ ہم ایسی اشیاء درآمد کرنے پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کریں جو ہماری ضرورت ہی نہیں۔ اب دیکھئے نا، دنیا بھر کی طرف ہمارے ہاں بھی غذائی قلت کا ایشو پیدا ہوگا اس کا کچھ کرنا ہے کیونکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں خوراک کی عالمی قلت کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ادھر یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ طویل ہو گی اور قبضہ کیے گئے علاقے روس سے واپس لیے جائیں گے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غذائی عدم تحفظ کو مزید ہوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یوکرین کی برآمدات کو جنگ سے پہلے کی سطح پر بحال نہ کیا گیا تو دنیا کو برسوں تک قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ روز نیویارک میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے گوٹیرش نے کہا کہ اس تنازعے سے، لاکھوں لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کی طرف جانے کا خطرہ لاحق ہے، جو بعد میں غذائی قلت، بڑے پیمانے پر بھوک اور قحط سالی کا روپ اختیار کر سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا، اگر ہم مل کر کام کریں تو ہماری دنیا میں اب بھی کافی خوراک موجود ہے۔ لیکن جب تک ہم اس مسئلے کو حل نہیں کرتے، ہمیں آنے والے مہینوں میں خوراک کی عالمی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جنگ سے جڑے مسائل کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں عالمی خوراک کی قلت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ انہیں توقع ہے کہ اگر کوششیں کی جائیں تو اس بحران کو ٹالا بھی جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یوکرینی اناج کی ترسیل کو دوبارہ شروع کرنے اور روسی کھاد کی برآمدات کو بحال کرنے کیلئے وہ روس، یوکرین، ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ گہرے رابطے میں ہیں۔دوسری طرف اقوام متحدہ میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی میزبانی میں ہونے والی فوڈ سکیورٹی کی میٹنگ کے دوران سیکرٹری جنرل نے کہا، میں پر امید ہوں کہ ابھی بھی ایک راستہ باقی ہے۔ سیکورٹی، اقتصادی اور مالیات سے متعلق پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کیلئے سبھی کی جانب سے  خیر سگالی کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پر روس اور یوکرین مجموعی طور پر  30 فیصد گندم برآمدات کرتے ہیں لیکن جنگ کی وجہ سے یہ سلسلہ روک گیا ہے، جس کی وجہ سے سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت بیس لاکھ ٹن سے بھی زیادہ گندم کے جہاز یوکرین کی بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بدھ کے روز ماسکو پر یہ کہہ کر شدید تنقید کی کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا تاہم ماسکو نے حملہ کر کے مشکل صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، روس نے اناج کی ایسی جنگ شروع کی ہے کہ جس سے خوراک کا ایک عالمی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ وہ یہ سب ایک ایسے وقت میں کر رہا ہے، جب لاکھوں لوگوں کو پہلے ہی سے بھوک کے خطرات کا سامنا تھا، خاص طور پر مشرق وسطی اور افریقی ممالک میں۔ادھر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بدھ کی رات اپنے ویڈیو خطاب میں یوکرین کی عوام سے اپنے ملک میں ایک طویل جنگ کیلئے تیار رہنے کیلئے کوشش کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا، کھیرسون، میلیٹوپول، برڈیانسک، اینروڈار، ماریوپول جیسے ہمارے وہ تمام شہر اور قصبے، جن پر روس نے قبضہ کر لیا ہے، وہ بس عارضی قبضے میں ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یوکرین انہیں واپس لے کر رہے گا۔تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ میدان جنگ کے حالات اس بات کا تعین کریں گے کہ اس علاقے کو یوکرین کے کنٹرول میں واپس آنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔دارالحکومت کییف سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ہم اسے جلد از جلد واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم قابضین کو نکالنے اور یوکرین کی حقیقی سلامتی کی ضمانت دینے کیلئے پر عزم ہیں۔ اس دوران یوکرین نے بڑے پیمانے پر فوج کی تعیناتی اور مارشل لاء کے نفاذ میں مزید 90 دنوں کے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے 23 اگست تک اسے بڑھا دیا ہے۔