یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بچہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ مختلف ممالک کے بچوں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق قریب ایک ارب بچوں کی صحت اور زندگیوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور اس میں ان کی زندگیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں۔ ان بچوں کو کمزور صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم سے محرومی، حیات کے عدم تحفظ اور غیر معمولی موسمی حالات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے بہبودِ اطفال کے ادارے یونیسیف نے اپنی خصوصی رپورٹ میں واضح کیا کہ پہلی مرتبہ بچوں کو موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق ہونے والے خطرات واضح طور پر سامنے آئے ہیں اور ماہرین کو ان کی شدت کا ادراک ہو سکا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مختلف موسموں کے بدلتے انداز سے کئی ملکوں کے بچے مہلک بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان بیماریوں کی لپیٹ میں آنے سے ان کی زندگیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں، جو ایک قابل افسوس بات ہو گی۔یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے نے اس رپورٹ میں شامل حقائق کو انتہائی دہلا دینے والے قرار دیا۔ فورے کے مطابق کلائمیٹ اور ماحولیاتی تبدیلیاں کسی شاک یا صدمے کے برابر ہیں اور انہوں نے بچوں کے حقوق کے دائرے کو محدود کر دیا ہے۔فورے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تبدیلیوں سے کئی ممالک کے بچے سانس لینے کے لیے صاف ہوا اور پینے کے صاف پانی سے بتدریج محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
یونیسیف کی سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کے بنیادی حقوق کا دائرہ چھوٹا ہونے سے ان کا استحصال بڑھ جائے گا اور وہ تعلیم، رہائش اور بچپن کی آزادی سے بھی محروم ہو کر رہ جائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صورت حال ایک بھیانک رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور انجام کار دنیا کا ہر بچہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر ہو کر رہ جائے گا۔یونیسیف کی اس خصوصی رپورٹ کا عنوان ’ماحولیاتی بحران بچوں کے حقوق کا بحران ہے یا پھر انگریزی میں The Climate Crisis Is a Child Rights Crisis ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 2.2 بلین بچے تینتیس ملکوں میں بستے ہیں۔ یہ تمام ممالک شدید خطرات کی دہلیز پر ہیں۔ ان میں کئی افریقی اقوام کے علاوہ ایشیائی ممالک بھارت اور فلپائن بھی شامل ہیں۔ان ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی کئی منفی جہتوں اور خطرناک شدتوں کا سامنا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ان ممالک کو آہستہ آہستہ بنیادی ضروریات کی کمیابی کا سامنا ہونے لگا ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں صاف پانی، سیوریج، صحت عامہ اور تعلیم شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش میں ناکامی کی صورت میں بچوں پر ناقابل بیان منفی اثرات مرتب ہوں گے، جن کی تلافی بھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مہم جاری رکھنے والے کم عمر اور نوجوان سرگرم کارکنوں نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے رہنماں پر کلائمیٹ چینج کے حوالے سے مناسب پیش رفت نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان میں خاص طور پر سویڈن سے تعلق رکھنے والی ٹین ایجر گریٹا تھنبرگ پیش پیش ہیں۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ جنگ، دہشت گردی، ملیریا، ایچ آئی وی، ٹی بی، منشیات اور شراب کے مقابلے میں آلودگی سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
2019 میں 90 لاکھ افراد آلودگی سے ہلاک ہوگئے۔لانسیٹ کمیشن کی طرف سے گزشتہ روز شائع ایک نئی عالمی رپورٹ کے مطابق آلودگی کی وجہ سے2019میں تقریبا 90لاکھ افراد کی موت ہوگئی۔ماہرین نے 'زہرآلودہ ہوا' سے ہونے والی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔لانسیٹ نے'آلودگی اور صحت' کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنگ، دہشت گردی، ملیریا، ایچ آئی وی، تپ دق، منشیات اور الکوحل سے عالمی صحت پر جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مہلک اثرات آلودگی کی وجہ سے مرتب ہورہے ہیں۔ ہوا، پانی اور مٹی میں انسانوں کے ذریعہ پھیلائی گئی آلودگی کی وجہ سے گوکہ فوری طور پر لوگوں کی موت نہیں ہوتی لیکن اس کے نتیجے میں لوگ امراض قلب، کینسر، تنفس کے مسائل، اسہال اور دیگر سنگین بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودگی انسانی صحت اور کرہ ارض کی صحت کیلئے ایک حقیقی خطرہ ہے جس نے جدید سماج کی پائیداری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔رپورٹ کے مصنف رچرڈ فویلر کا کہنا ہے کہ 2019میں دنیا بھر میں ہونے والی 60لاکھ 70ہزار اموات فضائی آلودگی کے سبب ہوئیں جس کا بنیادی ذریعہ پٹرول اور ڈیزل جیسے ایندھن اور بایو ایندھن ہیں۔انہوں نے کہا،اگر ہم صاف ستھرے اور سبز طریقہ کو فروغ نہیں دے رہے ہیں تو ہم یقینا کچھ سنگین غلطی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیمیائی آلودگی بھی بایو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچارہی ہے اور یہ ایک اور بڑا عالمی خطرہ ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قبل از وقت ہر چھ اموات میں سے ایک یا تقریبا 90لاکھ اموات آلودگی کے سبب ہوئی۔محققین کے مطابق گھروں کے اندر پائی جانے والی آلودگی، غیر محفوظ پینے کے پانی اور ناکافی حفظان صحت کی وجہ سے ہونے والی اموات میں گوکہ کمی آئی ہے لیکن بالخصوص جنوبی اور مشرقی ایشیائی ملکوں میں صنعت کاری کے سبب فضائی آلودگی اور کیمیائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جو کہ ناگہانی اموات کی بڑی وجہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے نتیجے میں 2019میں 4.6 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا، جو کہ عالمی اقتصادی آوٹ پٹ کا تقریبا چھ فیصد ہے۔کم اور اوسط آمدنی والے ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ 90فیصد سے زیادہ اموات انہیں علاقوں میں ہوئی ہیں۔