اگر میں وہ شاپر اپنے گھر کے پاس پھینک دیتا۔ ایسا کرنا ممکن تھا۔ پھر یوں بھی کہ چپکے سے کسی اور کے دروازے کے آگے لڑھکا کر رفو چکر ہو جاتا۔پھر رات کے اندھیرے میں کہیں بھی گرا سکتا تھا۔ کیونکہ را ت کے اندھیارے تو مدد فراہم کرتے ہیں۔ کتنے ہی شہری رات کو ہاتھوں میں تھیلے لے کر نکلتے ہیں او رکہیں بھی گھر کا گند گرا کر اپنی عزت و وقار کو بحال کرکے وہاں سے چلتے بنتے ہیں۔پھر ایسے بھی نڈر اور بہادر ہیں کہ دن کی روشنی میں بھی اس طرح کی الٹی سیدھی حرکتیں کر تے ہیں او راس پر اتراتے بھی ہیں۔پھر فخر سے اپنی راہ میں آنے والے واقف کاروں سے گفت و شنید کرتے ہوئے گھر کو لوٹ آتے ہیں۔جن کے گھروں کے پاس کوڑے کے ڈرم نہیں رکھے ہوتے ان کو ذرا دور جانا پڑتا ہے۔اسی لئے تواتنا سا کام ان کو پہاڑ کی طرح گراں گذرتا ہے۔شہروں میں تو چلو ڈمپر قریب ہی کہیں پڑے ہوتے ہیں۔کیونکہ سرکاری عملے کی شہر میں دل چسپی ہوتی ہے۔مگر شہر کے اطراف و جوانب میں صفائی کا عملہ متوجہ نہیں ہوتا۔ مجھے گند کا شاپر لے کر ایک فرلانگ فاصلے پر پڑے لوہے کے خاصے بڑے کوڑے دان کے پاس آنا پڑتا ہے۔مگر میں یہ کام بڑی آسانی سے سرانجام دے دیتا ہوں۔ وہ اس لئے کہ کہیں سوداسلف لینے کو نکلا تو یہ شاپر موٹر بائیک پر ٹانگ کر راستے میں جاتے ہوئے اچھا ل کر بڑے ڈمپرمیں گرا دیتا ہوں۔حالانکہ اتنے بڑے ڈمپر کے ہوتے ہوئے گند ڈمپر کے چاروں طرف زمین پر گرا ہو تا ہے۔مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب مجھ کو ایک راہگیر نے اس کام پر داد دی۔اس وقت میں نے نوٹ کیا اورمجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر
ہم کوئی برااور کوئی اچھا کام کریں تو اس کو باقاعدہ زیر نظر رکھا جاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی نازیبا کام ہے تو ہمیں اس کی انجام دہی کے وقت کوئی دیکھ نہیں رہا۔پھر کوئی احسن کام ہے تو اس نیک عمل کو کسی نے نوٹ نہیں کیا ہوگا۔ مگر یہ ہماری خام خیالی ہوتی ہے۔لو گ جانتے ہیں او رسمجھتے ہیں۔پھر آپ کے طرزِ عمل کو سامنے کھ کر خود بھی اس نیک کام کو دہرائیں گے۔ پھر اچھا نہ ہو برا کام ہوا تو اس کو بھی نوٹ کریں گے اور دل سے برا جانیں گے۔اگرآ پ کو نہ بھی جانتے ہوں تب بھی آپ کی شخصیت کا اثر ان پر بہت برا پڑے گا۔ وہ آپ کے اچھے برے کام کو آپ کی شخصیت کا حصہ بنا دیں گے۔پھر آپ کے بارے میں اپنے دل ودماغ میں ایک تاثر قائم کر دیں گے۔مجھے ان باتوں کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے وہ کوڑے کا شاپنگ بیک ڈمپر میں گرایا۔ میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ عمل کوئی خاص نہیں جو اس کو کوئی نوٹ کرے گا۔ مگر میں اپنی ذمہ داری نبھا نے کی کوشش کرتا رہا۔ حالانکہ گلی کے بچے میرے ہاتھ سے شاپر لینے کو آگے بڑھتے ہیں۔ وہ ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے یہ کوڑے کا تھیلا لے لیں۔ میں ایک دم ان کو روک دیتا ہوں مگر اس وقت جب میں نے سکوپ کر کے شاپر کو ڈمپر میں پھینکا تو ایک نوجوان لڑکے نے جو وہاں سے گذر رہا تھا مجھے شاباشی دی‘اس لئے خوشی کہ معلوم ہوا کوڑے غلط جگہ پھینکنے کے معاملے کو شہری سمجھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ کوڑے کو غلط جگہ نہیں پھینکنا چاہئے۔ جب مجھے اس شعور کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں تو دل شادمان ہو گیا۔اندازہ ہوا کہ خود اس کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ شہریوں کو نا مناسب مقام پر کوڑا پھینکنا نہیں چاہئے۔ مجھے یہ بھی سمجھ آئی کہ اک اکیلا میں ہی اس شہر کا خیر خواہ نہیں کوئی اور بھی ہے۔پھر جانے ا س طرح اور کتنے لوگ ہوں گے۔ جو یہ نہیں چاہتے ہوں گے کہ گند کوکوڑے کو ڈمپر کے باہر زمین پر گرایا جائے۔ خواجہ الطاف حسین حالی کا وہ شعر یاد آیا”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔اصل میں ہم خود اگر اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تواس سے شہر کی صفائی کی حالت زیادہ اچھی ہو جائے گی۔مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایسا نہیں کرتے۔ہم نے سب کچھ سرکاری لوگوں پر ڈال دیاہے۔۔اگر کوئی ایسا سوچتا ہے او رخود اس مہم میں حصہ نہیں لیتا توپھر ہو چکی صفائی۔