ناور شخصیات

ہمارے صوبے نے زندگی کے ہر میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ شخصیت پیدا کی ہے‘ فنون لطیفہ کو دیکھ لیجئے‘ کھیل کے میدان پر نظر دوڑائیے‘ سیاست کے میدان پر طائرانہ نظر ڈالئے‘ آپ کو ان تمام شعبوں میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ ملے گا۔ریڈیو پاکستان تو خیر ایک عرصے سے کام کر رہا ہے اب تو میدان میں درجنوں ٹیلی ویژن چینل بھی آچکے ہیں‘ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ان چینلز کے ارباب بست و کشاد کویہ خیال کیوں نہیں آتا کہ ان بے مثال شخصیات پر دستاویزی فلمیں بنائیں جن کو وہ ہر سال ان کے یوم پیدائش یا پھر ان کے یوم وفات کے موقع پر ٹیلی کاسٹ کر سکتے ہیں‘کہنے کامقصد یہ ہے کہ نئی نسل کو ان کے کارناموں سے روشناس کرایا جائے‘ جن شخصیات کا ہم ذیل کی سطور میں ذکر کریں گے وہ بجا طور پر لیجنڈز کے زمرے  میں آتی ہیں‘ وہ ہماری نئی نسل کیلئے رول ماڈل ہیں اوران کی شخصیت اورکردارکے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا از حد ضروری ہے‘پشاور چھاؤنی کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں نواکلی کے نام سے مشہور ہے‘اس گاؤں نے سکواش کے ایک سے زیادہ عظیم ورلڈ چمپیئن پیدا کئے ہیں‘ ہاشم خان‘اعظم خان‘روشن خان‘جان شیر خان‘جہانگیر خان‘محب اللہ سینئر‘محب اللہ اور جونیئرہدایت جہاں اور قمر زمان نے نصف صدی کے لگ بھگ سکواش کی دنیا میں بلا شرکت غیرے حکومت کی ہے‘ اسی طرح ہاکی کے کھیل پر اگر آپ ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو انیس سو اڑتالیس سے لیکر آج تک خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بے شمارکھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا اور کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کو جتوانے میں کلیدی کردار ادا کیا‘عبد الحمید نامی ایک کھلاڑی ہوا کرتا تھا جو حمیدی کے نام سے ہاکی کے حلقوں میں پہچانا جاتا تھا‘ان کا تعلق بنوں سے تھا اور وہ اس پاکستانی ہاکی ٹیم کا کپتان تھا جس نے پہلی مرتبہ انیس سو ساٹھ کے ورلڈ اولمپکس میں اس پاکستانی ٹیم کی قیادت کی تھی جس نے گولڈ میڈل جیت کر دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی‘پاکستان کی ہاکی ٹیم میں قاضی محب نامی ایک کھلاڑی بھی ہوا کرتا تھا جس کا تعلق بھی بنوں سے تھا‘ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے حیات خان بھی کافی عرصے تک پاکستان کی ہاکی ٹیم کے ممبر رہے‘ ہاکی کا ذکر ہو اور پشاور کے لالا ایوب کا نام نہ لیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی‘ لالا ایوب نے ایک لمبے عرصے تک خیبر پختونخوا میں ہاکی کے فروغ کیلئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب ان کو سپین نے بطور کوچ تعینات کیا تاکہ وہ ہاکی ٹیم کی تربیت کریں‘ فنون لطیفہ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے مختلف شعبوں میں بے شمار ایسی شخصیات نظر آتی ہیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں اپنی محنت شاکا اور ٹیلنٹ سے دنیا میں نہ صرف اپنے لئے ایک منفرد مقام بنایا بلکہ پاکستان کی شناخت کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا‘ مصوری اور سنگ تراشی میں گل جی کا ایک منفرد مقام ہے اور ان کا تعلق کریم پورہ پشاور شہر سے تھا اگر آپ فلم نگری پر ایک نظر ڈالیں تو گل حمید سے لے کر قوی خان‘ فردوس جمال‘ جہانگیر جانی اور عجب گل تک ایک لمبی فہرست ہے کہ جس میں شامل لاتعداد نام ہیں جیسا کہ ضیا سرحدی‘ ساغر سرحدی‘ یوسف خان المعروف دلیپ کمار ناصرخان‘ زکریا خان‘ پرتھوی راج‘ ونود کھنہ‘ انیل کپور وغیرہ درجنوں اور نام بھی ہیں جوکالم کے محدود حجم کی وجہ سے درج نہیں کئے جا سکتے۔