انہوں نے جیسے دنیا بھرکو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے‘گھر آتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے توڑے مروڑے ہوئے آتے ہیں‘ بارہا سمجھائے گئے بلکہ ڈاکٹر کے پاس لے جائے گئے مگر حضرت ہیں کہ یا تو نا سمجھ ہیں یا حد سے زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں‘تنی سمجھ بوجھ کہ اپنی ہی جان کے دشمن ہو ئے جاتے ہیں‘گھر والوں میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جس نے ان کو نہ سمجھایا بجھایا ہو۔ اس حد تک کہ ان کو بچے بھی کسی نہ کسی طریقے سے معصومانہ انداز میں گویا سمجھاتے ہیں۔مگر آپ کسی کے آکھے ویکھے ہی میں نہیں۔ حوصلے بلند ہیں وہ ہار ماننے والے نہیں۔ کبھی آستین پھٹی ہو تی ہے توکبھی آنکھ کے پاس خراش کا نشان نظر آتا ہے‘گھر والے بھی ا ب ان سے عاجز آ چکے ہیں۔ مگران کو دیکھتے ہی حیرت کے مارے پوچھتے ہیں‘ ارے یہ کیاہوا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ چپ ہوجاتے ہیں۔حضرت موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں۔جہاں ضرورت پڑی اچانک بریک کھینچ کر پرائے پھڈے میں جا دھمکتے ہیں۔ دو بندے کہیں مشت و گریباں ہیں۔عام راہگیر ان کوایک دوسرے سے الگ رکھنے میں مصروف ہیں۔بھلا ان شہہ زوروں کے بیچ آپ کی کیا ضرورت؟۔ آپ گذری عمر کے بندے اپنی ایج کا خیال کریں۔ ان کو تو کچھ نہیں ہوگا ہاں آپ کو کوئی بھولا بھٹکا ہوا مکا آکرلگ گیا تو الٹا دینے کے لینے پڑ جائیں گے۔ میں نے اسی لئے شروع میں کہا کہ توڑے مروڑے گھر کو لوٹتے ہیں۔کیونکہ اس قسم کی ایک مارکٹائی کے سین میں جا گھسے تھے۔پھرجاتے
ساتھ ہی ایک کو دوسرے سے الگ کرنے کی تابڑ توڑ اور جارحانہ انداز کی کوشش کی۔ اسی اثنا میں فریقین میں دونوں یہی سمجھے کہ میرے مخالف کا ساتھی ہے۔سو اس موقع پر اگر ان کو ایک آدھ الٹے ہاتھ کی پڑ جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ وہ اپنی ان حرکتوں سے باز بھی تو نہیں آتے۔سواگلے نے بطور رسید ایک مکا ان کو بھی جڑ دیا۔ حضرت کے ہونٹوں پر خون کی رنگین دھاری چمکی۔اپنے منہ پر الٹا ہاتھ رکھا اور جاننے کی کوشش کی۔مگر اس ایک سیکنڈ کی کاروائی میں ان کو کبھی پیچھے ہٹ جانے کا خیال نہ آیا۔ وہ رکشے والا تھا جو کار والے کے ساتھ الجھا تھا۔ کار والا اپنی غلطی نہیں مان رہا تھا اور رکشہ والا تو ماننے سے رہا۔ حالانکہ دونوں میں سے کسی ایک کی گاڑی کو رتی برابر نقصان نہیں پہنچا تھا۔ہاں صرف موڑ کاٹنے او رنہ کاٹنے غلط طور پر اچانک مڑ جا نے کا جھگڑا تھا۔یہ جب دیکھیں کہ گھی سیدھی ا نگلیوں سے نہیں نکلتا تو یہ وہی انگلیاں مزید سیدھی کر کے ان کے سامنے معافی کے لئے ہتھ جوڑ کر ہوا میں لہراتے ہیں۔ وہ اپنی سی کوشش میں حسبِ ضرورت اور موقع کی مناسبت سے دونوں فریقین میں کسی زیادہ زور والے کے پاؤں بھی پڑجاتے ہیں‘ اے میرے پیار ے اے میرے پھول مت کرو ایسا۔میں نے کہا ارے یار چھوڑو جہاں دوسرے راہگیر کھڑے تماشادیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پھربعض اپنا راستہ ناپتے ہوئے جا تے رہ جاتے ہیں آپ بھی ایسا کیجئے۔ وہ اس پر جواب دیتے ہیں میں ان کی طرح نہیں ہونا چاہتا جو آنکھیں موند کر نکل جائے۔مجھے تو آنجناب کی بہت فکر لگی رہتی ہے کہ ان نیک کاموں میں کہیں اپنی جان کو مفت میں نقصان نہ پہنچا دیں۔اُس دن سرِ بازار ایک موچی کے سر ہو گئے۔اس کے پاس دو پاؤں کے سہارے بیٹھ کر مذاکرات میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔بیگم صاحبہ کی جوتیوں کی مرمت اور سلائی وغیرہ کا معاملہ نہ تھا۔ یقین تھا کہ موچی بیچارے سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی۔ میں ان کو اس حالت میں دیکھ کر آنکھیں بند کئے وہاں سے چلاآیا۔ بعد میں جب ملے تومیں نے عرض گذاری۔ ڈر بھی تھا کہ مجھے ہی نہ دبوچ لیں۔ مگروہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں۔ آپ کہیں گے کہ میں ان کو بزور اپنی طرف کر لوں گا تو یہ آپ کا خیال ہے۔ ہاں ان کو اگر آپ کی بات پسند آگئی تو آپ کے دوست بن جائیں گے۔مگر ان کی دوستی سے بچنا چاہئے۔ان کو آپ کی جو بات پسند آئے گی وہ یہی ہوگی کہ آپ ان کی ہاں میں ہاں ملارہے ہوں گے۔تب ہی تو جا کر وہ آپ کو یاروں کی لڑی میں پرولیں گے۔وگرنہ تو ان سے بات کرنا ان کو قائل کرنابیکار کوشش ہوگی۔ اپنی دھن کے بندے ہیں۔میں نے پوچھا اجی فرمائیے کہ صبح دم موچی کے پاس کیا بکھیڑا لے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے کوئی خاص بات تو نہیں تھی۔ میں نے کریدا اور چھیڑا۔فرمانے لگے کہیں ایسا نہ ہو موچی جوتیوں کو نئی میخیں لگانے کیلئے پرانے کوکے اکھاڑ کر سامنے راستے میں نہ پھینکتا ہو۔کیونکہ کسی کے پاؤں میں یہ الٹی مڑی ہوئی کیل گھس جائے یا کسی کے ٹائر میں داخل ہوکر اس کے بائیک کو بیکار کر ڈالے گی۔میں نے کہا سنو یار کوئی اتنا خیال نہیں رکھتا۔ جانے دو اتنی معمولی باتیں لے کر بیچ بازار کے ہر ایک کے ساتھ گفت و شنید میں مشغول رہتے ہو۔کوئی کیا کہے گا۔فرمانے لگے میرا فرض ہے کہ میں نشاندہی کروں۔باقی ان کی اپنی مرضی جو کرتے ہیں‘ میں دوبارہ عرض گذار ہوا۔دیکھیں سر جی ہر آدمی کو عقل وشعور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہوگا کہ پرانی جوتیوں سے میخیں اکھاڑ کر بیچ رستے میں نہیں پھینکے گا۔