سیاسی استحکام اور معاشی ترقی ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں‘ اِس نظریئے کو سمجھنے کیلئے پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال کو دیکھا جا سکتا ہے، پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے دوسری طرف سیاسی جماعتیں گروہی سیاست کے دائرے میں گھوم رہی ہیں‘ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اکثر ’سری لنکا‘ کے تکلیف دہ حالات کا ذکر کیا جاتا ہے اور اِسی حوالے سے ماہرین معیشت اور محب وطن حلقے حکومت سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ معاشی بحالی کا فوری فیصلہ کرے تاکہ ملکی معیشت کی بہتری ممکن بنائی جا سکے۔ وزیراعظم اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بڑے فیصلے کریں اور ڈوبتی‘ غوطے کھاتی معیشت کی ناؤ کو کنارے لگانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اب تک کے حکومتی اقدامات اور روئیوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت سرِدست ایسے فیصلوں سے گریزاں ہے جن کے اثرات اس کی سیاسی مقبولیت میں کمی کا باعث بنیں۔ اس بات کا ثبوت اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس قسم کا بیان دے چکے ہیں کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا زبردست ریلا آئے گا جو حکومت کے حق میں پائے جانے والے عوامی جذبات کو خش و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کو بھی کہنا پڑا کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت ہی چھوڑ دیں لیکن حکومتی اکابرین کے ان جذبات و احساسات کے باوجود اس کے سب سے بڑے اتحادی سابق صدر آصف علی زرداری حکومت چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ وزیراعظم نے فوری ازالے کے طور پر کفایت شعاری اپناتے ہوئے قیمتی زرِمبادلہ بچانے کی غرض سے درجنوں پرتعیش درآمدی اشیاء پر (کم سے کم) تین ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی ہے اور اس ضمن میں نئی برآمدی پالیسی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس سے یقینی طور پر کرنٹ خسارہ کم ہو گا اور مجموعی طور پرچار ارب ڈالر کی بچت ہو گی لیکن یہ اقدامات ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے کافی نہیں۔
اس کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے چھوٹ حاصل کر کے کم شرائط پر قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ ملک کے بڑے سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں اور ارب پتی سیاستدانوں سے بیرونِ ملک میں پڑی دولت پاکستان لانے کیلئے کوئی ایسی ترغیبی سکیم متعارف کروانا ہو گی کہ جس پر وہ کسی خوف اور تحفظات کے بنا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے پر تیار ہو جائیں۔
پاکستان میں صنعتی ترقی کیلئے خصوصی رعایتیں بھی دی جا سکتی ہیں۔بہرحال ملک کے معاشی حالات اِس وقت اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حالات کو سدھارنے کیلئے بڑے اور اہم فیصلے بلاتاخیر کرنے ہوں گے تاکہ معیشت کو درپیش مسائل بڑھنے کی بجائے کم ہونے لگیں اور اس سلسلے میں تمام سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ملکی مفادات کے حصول کے سلسلے میں سیاسی اختلافات کو نظر انداز کریں۔