وقت کا تقاضا

ملک کے سیاسی حالاتِ اس تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ ان کا پیچھا کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ہر لمحہ نئی سیاسی صورتحال پیدا کر رہا ہے‘ انفارمشن ٹیکنالوجی نے ایک ایسا انقلاب پیدا کر دیا ہے کہ بلا روک ٹوک خبریں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔، اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں اتنے ٹیلی ویژن چینلز کام کر رہے ہیں کہ کسی بھی خبر کو عوام تک پہنچنے میں لمحوں کی دیر بھی نہیں لگتی۔ اگرتھوڑی بہت کسر رہ جاے تو وہ سوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے۔اب تو صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں موجود سیاسی جماعتیں سیاسی جنگ میڈیا کے ذریعے لڑ رہی ہیں۔ تو دوسری جانب عالمی سطح پر سپر پاورز بھی کسی بھی اہم مسئلہ پر عالمی رائے عامہ کو اپنے موقف کی طرف مائل کرنے کیلئے بھی زیادہ تر انفارمشن ٹیکنالوجی کے ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں ان حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر خبروں اور رپورٹوں کے حوالے سے چیکنگ کا نظام موثر ہو تاکہ دروغ بیانی اور کردار کشی کے رحجان کا خاتمہ ہو، جو آج کل موجود ہے۔
ایسے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر دروغ بیانی سے متاثر افراد law of torts یعنی ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات کا سہارا لیں‘اب جیسے کہ پہلے تذکرہ ہوا کہ عالمی طاقتیں بھی میڈیا کے ذریعے ہی آج کل ممالک میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یوکرین جنگ میں بھی میڈیا کا بھر پور استعمال دونوں طرف سے ہوا تاہم مغربی میڈیا اور امریکہ اس حوالے سے روس پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں‘وہ کوشش کرتے رہے کہ یوکرین میں روس کی کامیابیوں کو کسی طرح سامنے نہ آنے دیا جائے تاکہ باہر کی دنیا میں روس کی کمزوری کا تاثر دیا جاسکے۔تاہم روس نے اندر ہی اندر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اب سامنے آنے لگی ہیں اور بالاخرروسی وزارت دفاع نے اعلان کر دیا ہے کہ جنوبی یوکرین کے ماریوپول شہر میں واقع آزوفسٹال سٹیل پلانٹ پر ان کا مکمل قبضہ ہوگیا ہے۔ اورمہینوں تک محاصرے کے بعد باقی ماندہ جنگجوؤں نے بالآخر خودسپردگی کردی۔
روسی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگوف نے صدر ولادیمیر پوٹن کو آپریشن کے اختتام اور آزوفسٹال صنعتی کمپلکس اور ماریوپول شہر کی مکمل آزادی کے متعلق مطلع کردیا ہے۔آزوفسٹال ماریوپول میں یوکرینی مزاحمت کا آخری مقام تھا۔ روسی فوجیوں نے یوکرین پر فوجی کاروائی کے ابتدائی دنوں میں ہی اس کا محاصرہ کرلیا تھا۔ روسی فورسز نے اس وسیع سٹیل پلانٹ میں تمام انسانی امداد پہنچانے پر روک لگا دی تھی‘ انہوں نے اس پر فضا سے بمباری کی اور وہاں موجود یوکرینی فوجیوں کو اپنے ہتھیار ڈال دینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن یوکرینی فوجی شہر پر روس کے مکمل کنٹرول کو آخری وقت تک روکنے کی کوشش کرتے رہے۔
 بہت سے یوکرینیوں نے ان فوجیوں کو قومی ہیرو قرار دیا ہے جو ملک کی سخت مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے۔روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ ماریوپول کے سٹیل پلانٹ میں 531یوکرینی جنگجوؤں کے آخری گروپ نے بھی اب خود سپردگی کردی ہے‘ اسکے ساتھ ہی اس سٹیل پلانٹ میں 16مئی سے خودسپردگی کرنے والے یوکرینی فوجیوں کی تعداد 2439 ہوگئی ہے روسی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ کارخانے کی تمام تنصیبات، جہاں جنگجو چھپے ہوئے تھے، اب روسی مسلح فورسز کے مکمل قبضے میں ہیں‘ ماریوپول سٹیل پلانٹ میں بہت سے عام شہری بشمول خواتین، بچے اور معمر افراد بھی پھنس گئے تھے‘ جنہیں اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی روسی حکام کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد وہاں سے محفوظ طور پر نکالنے میں کامیابی مل گئی تھی‘ تاہم وہاں موجود یوکرینی فورسز کی طرف سے خودسپردگی سے انکار کی وجہ سے روس سٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم ماریوپول شہر پر مکمل قبضہ نہیں کرسکا تھا۔
 یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ سٹیل پلانٹ میں موجود باقی ماندہ فوجیوں کو وہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے‘ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا، آج لڑکوں کو ملٹری کمان کی طرف سے واضح اشارہ مل گیا کہ اب وہ باہر آسکتے ہیں اور اپنی جان بچاسکتے ہیں۔زیلنسکی نے بتایا کہ آزوفسٹال سٹیل پلانٹ سے فوجیوں کے انخلا کی کاروائی مغربی شرکاء کی شراکت کے ساتھ ہوئی ہے۔ شہریوں کو لے جایا گیا، ڈاکٹروں کو لے جایا گیا، زخمیوں کو لے جایا گیا۔ اس کے بعد یوکرینی فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے باہر نکل آئیں‘زیلنسکی نے کہا کہ ماریوپول کو بچانے میں بہت سے ہیلی کاپٹر پائلٹوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ بڑی تعداد میں لوگوں، ہمارے پائلٹوں، کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ہمارے ان جانباز جوانوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آزوفسٹال تک پہنچنا تقریبا ًناممکن ہے اس کے باوجود انہوں نے ادویات، کھانے اور پانی پہنچانے اور زخمیوں کی مدد کرنے میں جان کی بازی لگادی۔
ماسکو نے فی الحال یہ نہیں بتایا کہ آزوفسٹال سٹیل پلانٹ میں جن یوکرینی فوجیوں نے خودسپردگی کی ہے ان کا کیا ہوگا‘ سابقہ ہفتوں کے دوران خودسپردگی کرنیوالے فوجیوں کو روس کے زیر انتظام علاقوں میں بھیجا گیا تھا‘روسی صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ ان فوجیوں کیساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سلوک کیا جاء گا‘ تاہم روسی قانون سازوں نے منگل کے روز ایک تجویز پیش کی تھی کہ آزوفسٹال سٹیل پلانٹ کے جنگجوؤں کے ساتھ نازی مجرموں جیسا سلوک کیا جانا چاہئے اور انہیں یوکرین کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہئے‘ اس ساحلی شہر پر قبضے کے بعد اب روس نے عملا یوکرین کو بحریہ اسود تک رسائی سے محروم کر دیا ہے اور دوسری طرف ارمینیا کے ساتھ زمینی راستے کو بھی محفوظ بنا لیا گیا ہے۔ اس جنگ نے اگر چہ توقع سے زیادہ طوالت اختیار کی ہے تاہم روس نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے اس پر وہ کاربند ہے۔