دنیا میں کا میا بی اور خو شحا لی کا راز کیا ہے؟ دانشوروں کا قول ہے کہ دنیا کی تما م مسرتوں کا راز صرف شکر گزاری اور قناعت ہے، جو لوگ شکر گذارہو تے ہیں وہ مسرتوں اور شاد ما نیوں سے سر شار ہوتے ہیں‘ شکر کا دوسرا نا م قنا عت ہے اور قنا عت کے مقا بلے میں لا لچ، حرص اور حسد کے الفاظ آتے ہیں۔یقینا جس کو لالچ اور حرص کا مرض لاحق ہو تو وہ ہر لمحہ بے چین ہی رہے گا اور زیادہ سے زیادہ کی کوشش میں نہ صرف وہ اپنے آپ کو ہلکان کر دیتا ہے بلکہ دوسروں کیلئے بھی وہ ایک بری مثال کے طور پر موجود ہوتاہے، کیونکہ یہ تو ایک مانی ہوئی بات ہے کہ لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت سے کام کرتے ہیں۔ اور جو چیز یا اشیاء دوسروں کے پاس ہوتی ہیں ان کا حاصل کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔
ورنہ ان چیزوں کے بغیر بھی زندگی بہت خوب اور سہولت کے ساتھ گزرتی ہے تاہم یہ سوچ دماغ پر حاوی ہو کہ دوسروں کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کے پاس بھی آجائے تو پھر انسان کیلئے ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ جیت کی بجائے محض ہار کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے۔ کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات درج ہیں جن میں شکر کی خو بی اور نا شکری کی خرا بی بیان کی گئی ہے ایک شخص کا واقعہ آیا ہے جو ہر وقت تنگی، تنگ دستی، غر بت اور نا داری کی شکا یت کر تاتھا ایک بار اس نے ایک بزرگ سے اپنی تنگ دستی کی شکا یت کی، بزرگ نے کہا ایک مر غا پا لو سات دن بعد پھر میرے پا س آؤ۔
اس نے نصیحت پر عمل کیا سات دن بعد روتا ہوا آیا کہ مر غے میرا جینا حرام کر دیا ہے بزرگ نے کہا ایک بکرا پا لو مرغا بھی ساتھ رکھو‘سات بعدآجا نا، سائل نے بکرا بھی رکھ لیا سات دن بعد ہلکان ہو کر آیا اور شکایت لگا ئی کہ میرا جینا دو بھر ہو گیا ہے بزرگ نے کہا کوئی بات نہیں ایک گدھا بھی پا لو پھر آکر مجھے بتا نا، سائل نے گدھا بھی رکھ لیا سات دن بعد آکر بتا یا کہ میرا اور میرے بچوں کا جینا حرام ہو گیا ہے گھر میں اتنی جگہ نہیں جتنی جا نوروں نے لی ہے پھر جا نوروں کی گند گی نے تنگ کیا ہوا ہے، بزرگ نے کہا مر غا بیچ ڈالو، اس نے ایسا کیا، دوسرے ہفتے بزرگ نے کہا بکرا بیچ ڈالو، اس نے ایسا ہی کیا، آخری ہفتے بزرگ نے کہا گدھا بھی بیچ ڈالو۔
اُس نے بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا، ایک ہفتہ بعد تحفے تحا ئف لیکر آیا اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا سائل کے جا نے کے بعد لو گوں نے بزرگ سے پو چھا اس کو اتنی زیا دہ خو شی، مسرت اور خوش حا لی کیسے نصیب ہوئی؟ بزرگ نے کہا اس کے گھر میں ساری آسائشیں مو جو د تھیں مگر یہ شخص نا شکر ا تھا یہ اپنی آسائشوں کا مقابلہ اپنے سے زیا دہ خو شحال لو گوں سے کر تا تھا اور اپنی قسمت پر ہر وقت روتا رہتا تھا جب مر غا، بکر ا اور گدھا اس کے گھر میں آگھسے تو یہ مزید تنگ ہوا پھر جب تینوں کو گھر سے نکا لا گیا تو اس کو اپنا گھر پرسکون نظر آیا میں نے اس شخص کو عملی طور پر تجربہ کرایا کہ اس کے گھر میں کوئی تنگی اور تنگ دستی نہیں وہ صرف نا شکرا ہے۔
اب یہ کبھی حر ص، حسد اور لا لچ کی آگ میں نہیں جلے گا جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر شکر اور قناعت کر کے مطمئن زندگی گذارے گا دنیا میں کا میا بی اور خوشحالی کا معیار دولت نہیں، شکر اور قناعت ہے، شکر ہی ہے جس کو خوشحا لی اور کا میا بی کا راز کہا جا تا ہے۔ یعنی ہمارے زیادہ تر مسائل یا غم ہماری بے صبری اور ناشکری کی وجہ سے ہیں۔ اس لئے تو کہا گیا ہے کہ اپنے سے خوشحال اور دولتمند لوگوں کی بجائے اپنے سے کمزور اور غریب لوگوں پر نظر ڈالنی چاہئے تاکہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس پر ہم شکر کریں اور اپنے حال پر قانع ہو۔
یہ قناعت ایک ایسی دولت ہے کہ جس کو نصیب ہو سمجھو کہ اس کو دنیا و جہاں کی دولت مل گئی۔ کیونکہ یہ وہ صفت ہے اگر کسی میں آجائے تو اس کے غم ختم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اگر ان لوگوں کی برابری کا شوق کو ئی پالے جو ان سے بہت آگے ہیں تو یہ شوق پالنے والے نے اپنے لئے غم پا لیا ہے جو بہت کچھ پانے کے بعد بھی کبھی کم نہیں ہوتا اور کیونکہ ایک کی برابری تو آپ نے کر لی تاہم اب بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت اور اشیاء ہیں کیونکہ خواہشات وہ پھندہ ہے جو دراز ہوتا ہی رہتا ہے اور اس کا پیچھا کرنے والا اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔اور سوائے حسرت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔