آج کل زمانے کی ضرورتیں بدل گئی ہیں۔ جہاں تبدیلیاں آ رہی ہیں وہاں کہاوتوں او رمحاوروں میں بھی رد و بدل کرنا اشد ضروری ہو گیاہے۔ بھلے اگر زبان و بیان میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔لیکن ہم لوگوں کے رویوں میں تغیر و تبدل کا آنا لازمی ہے‘وہ یہ کہ آم کھاؤ او رخوب کھاؤ پھر جب کھا چکو تو دوبارہ کھاؤ‘ہمارے پشاور کے پیارے شاعر سیماب اختر سیماب کا شعر ہے کہ ”اختر اپنا تو عقیدہ ہے بقولِ غالب‘ آم میٹھے ہوں بہت سارے ہوں اور ٹھنڈے ہوں“۔بلکہ آم کھا کر ان کی گھٹلیاں کوڑے میں نہیں پھینکنا چاہئیں‘ ان کو صاف کر کے اپنی گاڑی میں رکھ لیں یا جیسے بھی ساتھ اٹھا لیں‘کہیں ویرانہ دیکھیں‘ وہاں جہاں درخت نہ ہوں یہ گھٹلیاں او ربیج گرا دیں‘ خاص طور پر وہ شاہراہیں جن کے کناروں پر درخت نہیں وہاں گرا دیں‘پھر آنے والی قریب کی بارشوں میں وہ کہاوت بھی سچ ہو جائے گی ”آم کے آم گھٹلیوں کے دام“۔پھر مزے ہی مزے ہوں گے‘بلکہ جو پھل فروٹ آج کل چل رہے ہیں۔
ان کی گھٹلیاں بھی ساتھ ہی پھینک دیں۔ اس طرح ایک نہ ایک دن اور درخت بھی اگ آئیں گے۔ہریالی الگ ہوگی او رماحول جدا طریقے سے خوشگوار ہو جائے گا‘ کیونکہ آج کل سُوکھے کاموسم چل رہا ہے‘بارشیں نہ ہونے سے ہریالی کا وہ آئیڈل سماں نہیں۔پھر ہم لوگوں نے خود ہی درختوں کو کاٹ کر رکھ دیاہے۔ پچھلے سال سے جو سرکاری پراجیکٹ ادھورے تھے وہ ابھی شروع کرنے کی تیاری ہے‘ ان تعمیراتی سلسلوں کی بحالی تو ہوگی مگر جو درخت ان ویرانوں میں آب وہوا کی پہرہ داری کے لئے کھڑے تھے ان کو بیچ میں سے ہٹایا جائے گا‘ اس لئے کہ اس جگہ سیمنٹ اور بجری ڈال کر نئی عمارات کھڑی کی جا سکیں۔اگرچہ تعمیر کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ نئے پودے لگائے جائیں۔جو ایک دن پھل پھول کر درخت بن جائیں۔ ہم اپنے ماحول کو خود زندہ درگور کر رہے ہیں۔
کتنے درخت اُگائے اس کا حساب کریں او رزیادہ سے زیادہ اُگائیں‘ لاکھوں ہوں یا وہی درخت کروڑوں ہوں جن کو بھلے لاکھوں کے حساب میں شمار کریں۔مگر درخت اُگانا ضروری ہے۔آم کھانا ہے تو اب پیڑ بھی گننا ہے۔ کیونکہ یہ سب کسی او رکے لئے نہیں خود اپنے لئے ہے۔ہم اپنی گاڑی کہیں پارک کرنا ہو تو قریب کے درخت کے نیچے کھڑی کر دیتے ہیں۔مگر افسوس کہ درخت کی اہمیت جانتے بوجھتے کوئی پودا نہیں لگاتے۔ہمیں شعور ہی نہیں کہ درخت ہمارے لئے کتنے اہم ہیں۔
ماحول کوہم اگر بچا نہ سکے تو اگلی نسل ہمیں بددعائیں دے گی۔ کیونکہ ہم ان کیلئے گلوبل وارمنگ کی بلا کو زندہ چھوڑ کر چلے جائیں گے‘ ارضیاتی تیز درجہ حرارت ہماری آنے والی پُشتوں نے تو نہیں پیدا کیا ہوگا‘ باہر ملکوں میں جتنے جتنے درخت کاٹے جاتے ہیں اتنے اتنے درخت ساتھ ساتھ لگاتے جاتے ہیں۔بلکہ جب گھر میں کوئی بچی پیدا ہوتی ہے تو اس ننھی جان کے حصے کے پودے لگا دیتے ہیں۔وہ جب بڑی ہوتی ہے۔ پھراس کی شادی کا وقت آن پہنچتا ہے تو وہی پودے جو درختوں کی شکل اختیار کر چکے ہوتے ہیں ان کو کاٹ کر فروخت کرنے کے بعد بچی کی شادی کا خرچہ ادا کیا جاتاہے۔پھر ساتھ نئی سرسبزی بھی بوئی جاتی ہے۔
یہ ذمہ دار قوم کا شعور ہے اور ان کا احساس ہے کہ وہ درخت کے کاٹنے کو برا اور درخت لگانے کو کس طرح اچھا جانتے ہیں۔آج کل دنیا بھر میں گرمی کی شدت زیادہ ہے۔سو اس بلا سے دو دو ہاتھ کرنے کو یہی نسخہ ہے کہ درخت اُگاؤ مہم پر زور دینا چاہئے‘ہمارے ہاں اگر یہ کہا جائے کہ موبائل کے مضبوط سگنل تب ہوتے ہیں جب گھر کے پاس کوئی درخت ہو۔اس وقت ہمارے سمجھدار نادان دھڑا دھڑ درخت لگانا شروع کردیں گے‘یو ں ہمارے ہاں آم کھانے کے ساتھ پیڑوں کو شمار میں رکھنے کا رواج بھی شروع ہو جائے گا۔ بلکہ اپنو ں کو تو ہم پہچانتے ہیں کہ یہ خود ہمارا آئینہ ہیں۔
ایسا ہو گا کہ یہ پرائے درخت اکھاڑ لاویں گے اور دروازے کے باہر تو کیا گھر کے اندر لگاویں گے۔گرمی کی شدت کو محسوس کیا جارہاہے۔پھر ساتھ ہی اس کا حل فیس بک کی ہر دیوار پر پوسٹر چسپاں کر کے دیا جا رہا ہے کہ درخت لگانا ہیں۔مگر فیس بک پر تو خالی خولی باتوں کی رنگینیاں ہیں۔عمل درآمد کا ڈول نہیں ڈالا جاتا۔بلکہ یو ں کہئے کہ اس خشک کنویں سے جو ڈول نکلتا ہے اس کو ڈھول سمجھ کر بہت بجایا جاتا ہے‘کیونکہ سناہے کہ خالی ڈھول کی آواز ودھمکار بہت ہوتی ہے‘آموں کا سیزن شروع ہو چکا ہے‘ہمارے ہاں پشاور میں تو اپنے آم نہیں فروخت ہوتے‘ملتان او ردوسرے شہروں سے یہاں لا کر بیچے جاتے ہیں۔اس لئے آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام کے اس موسم میں یہ پھل نوشِ جاں کر کے مزید زرخیزی کے لئے ان کے بیج او رگھٹلی جا کرویرانوں کی مٹی میں گرا دیں۔