جنگ کے بادل ابھی چھٹے نہیں 

یورپ میں یوکرین کے تنازعے پر جو کشیدگی پائی جاتی ہے اس میں آ ئے دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ فن لینڈ نے جوں ہی نیٹو میں شمولیت کا اعلان کیا تو روس نے اسے گیس کی سپلائی بند کر دی۔ادھر آ سٹریا کے اس فیصلے پر امریکہ سخت سیخ پا ہے کہ جس کے تحت اس نے روس سے گیس روبل کی ادائیگی سے خریدنے کا اعلان کیا ہے‘ امریکہ کی نظر میں اس سے ڈالر کی صحت پر برا اثر پڑ سکتاہے۔ قصہ کوتاہ جب تک یوکرین کا معاملہ ایک طرف نہیں ہوتا نہ صرف یورپ بلکہ عالمی اُفق پر جنگ جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ پیوٹن کی شکل میں روس کو جو حکمران ملا ہے اسے پولیٹکل سائنس کی زبان میں hawkکہتے ہیں‘ وہ جنگجو ہے اور امریکہ سے ہر صورت میں بدلہ لینا چاہتا ہے وہ اسے سویت یونین کو توڑنے کا ذمہ وار ٹھہراتاہے اور دیکھا جائے تو یہ حقیقت بھی ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کو جس طرح گھیرا اسکا نتیجہ بعد ازاں سوویت یونین کے ٹوٹنے کی صورت میں سامنے آیا‘لیکن اس وقت تو روس نے امریکہ کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے اور یوکرین کی صورت میں پورے یورپ کو سبق سکھانے کی جو حکومت عملی اختیار کی ہے اسکے دور رس اثرات سامنے آئیں گے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کا اتحاد ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے اور بہت سے ممالک روس کے ہمنوا بھی بن جائینگے کیونکہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ کیا ضمانت ہے کہ آج جس طرح یوکرین کو روس نے سبق سکھانے کیلئے استعمال کیا ہے کل فن لینڈ اور سویڈن بھی نشانے پر ہوں۔ ایسے میں یا تو روس کے ساتھ کھلی جنگ شروع ہوگی یا پھر یوکرین کی طرح یہ ممالک ہی روس کا سامنا کرنے کیلئے اکیلے چھوڑ دئیے جائینگے جنوبی یوکرین  پر قبضے کے بعد روس یہاں پر موجود یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کو روس کے گرڈ سے ملانے کا عندیہ دے چکا ہے‘جبکہ یوکرین نے ملک کے ایک بڑے ایٹمی بجلی گھر کو روس کے بجلی کی ترسیل کے گرڈ سے منسلک کرنے کے روسی منصوبے کو بے معنی خواہش قرار دیکر مسترد کر دیا ہے۔روسی فوجی جنوبی یوکرین میں دریائے ڈنیپئر کے کنارے پر قائم زاپوریزہیا ایٹمی پلانٹ پر قابض ہیں۔ یہ یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی پلانٹ ہے۔
 یوکرین کا عملہ اب بھی اسے چلا رہا ہے لیکن روس نے اپنے جوہری ماہرین کو انکے کام کی نگرانی کیلئے بھیجا ہے۔روس کے نائب وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس سے بجلی یوکرین کو فروخت کرے گا۔ روسی نائب وزیر اعظم نے کہا کہ اگر یوکرین  نے پلانٹ کی بجلی کی ادائیگی سے انکار کر دیا تو روس زاپوریزہیا پلانٹ کو روس کے توانائی کے نظام کے ساتھ جوڑ دیگا۔ گزشتہ روز روس کے زیر قبضہ جنوبی یوکرین کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یوکرئنی توانائی کا نظام بجلی حاصل کرنے اور اس کیلئے ادائیگی کرنے کیلئے تیار ہے‘ تو ہم بجلی فراہم کریں گے، لیکن اگر نہیں، تو پلانٹ روس کے لیے کام کریگا۔تاہم یوکرین کی سرکاری نیوکلیئر ایجنسی اینرجوایٹم کے ترجمان نے کہا کہ پلانٹ کو روس سے منسلک کرنے میں کئی سال لگیں گے انہوں نے کریمیا سے روس کو جوڑنے والے پل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا‘ روسی عملی طور پر پاور لائن بنا سکتے ہیں‘ لیکن اس میں ان کو کریمیا کے پل کی طرح ایک طویل وقت لگے گا یعنی کئی سال۔عام طور پر یہ پلانٹ یوکرین کی جوہری توانائی کا نصف سے زیادہ اور ملک کی کل بجلی کی فراہمی کا20فیصد پیدا کرتا ہے۔ لیکن اب اسکے چھ میں سے صرف دو ری ایکٹر کام کر رہے ہیں۔