پانی کی شدید قلت سے قومی ترقی بری متاثر ہورہی ہے اور اگر اِس کی شدت میں مزید اضافہ ہوا‘ جس کی پیشگوئی کی جا رہی ہے تو اِس سے قومی معاشی ترقی اور مہنگائی میں کمی جیسے اہداف حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہیں گے۔ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آ رہی ہے اور ہر خاص و عام جانتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کو نئے آبی ذخائر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر قومی ترقیاتی حکمت عملیوں میں حال و مستقبل کی توانائی ضروریات کو مدنظر نہی رکھا جاتا تو اِس سے پیدا ہونے والے مسائل بحرانی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیم دو بڑے ذخائر آبی ہیں جبکہ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی مشترکہ صلاحیت دیگر ممالک کے مقابلے کم ہے۔ امریکہ 900دنوں کی ضروریات کے لئے پانی ذخیرہ کئے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کی ضرورت کے مطابق پانی تین ماہ کی ضروریات کیلئے بھی کافی نہیں ہے۔
ڈیموں کی قلت کی وجہ سے پاکستان سالانہ ملنے والے کل پانی کا صرف صفر اعشاریہ صفر نو فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے! جب ہم پانی ذخیرہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سخت ماحولیاتی حالات پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ اگر چھوٹے پیمانے پر چند اضافی ڈیم تعمیر کئے جائیں تو ضائع ہونے والا زیادہ تر پانی بچایا جا سکتا ہے۔ ہر سال پاکستان سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ ڈیموں سے ایسے ہزاروں افراد کو بھی بچایا جا سکتا تھا جو ہر سال سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں اور جن کی معیشت و معاشرت کو سیلاب بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔ پانی کی قلت کی موجودہ لہر اچانک نہیں ہے۔
مختلف ادوار میں ماہرین کی جانب سے بار بار مسئلے کی سنگینی کے بارے میں خبردار کیا جاتا رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ توقع ہے کہ سال دوہزارپچیس تک ملک میں پانی کی قلت بلند ترین سطح تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان کونسل آن ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کا کہنا ہے کہ ”پاکستان تین سال سے بھی کم عرصے میں ”خشک“ ہو سکتا ہے۔ صورتحال اِس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب آبی ذخیرے کی گنجائش کے بارے میں کسی انفرادی صوبے کی پوزیشن سے قطع نظر‘ ہر پاکستانی شہری کسی نہ کسی صورت پانی کی قلت کا سامنا کرے گا جس کے لئے اُسے تیار رہنا چاہئے۔
بڑھتی ہوئی آبادی نے مستقبل کے لئے پانی کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پاکستان دنیا میں پانی استعمال کرنے کے لحاظ سے چوتھا بڑا (صارف) ملک ہے یعنی پاکستان میں پانی استعمال کرنے کیلئے عوامی سطح پر خاطرخواہ احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ سال 2050ء تک پاکستان کی آبادی 38 کروڑ (380ملین) سے زیادہ ہو جائے گی اور آبادی کے بڑھنے سے پانی کی فراہمی متاثر ہوگی‘ جس کی پہلے ہی توقع کی جارہی ہے۔ ملک کی موجودہ آبادی بائیس کروڑ (220 ملین) کی ضروریات کے لئے اگر پانی کم ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اِس میں قریب دوگنا اضافہ ہونے کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی۔ توجہ طلب ہے کہ ملک میں ایک طرف پانی کم ہو رہا ہے اور دوسری طرف پانی کی طلب و استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جن کے ہاں موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے ظاہر ہو رہی ہیں اور اِن کی وجہ سے پاکستان مستقبل میں زیادہ متاثر ہونے کے قریب ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کہ عالمی حالات کی وجہ سے گرمی بڑھنے اور اِس گرمی کی لہر نمٹنے کیلئے پانی کی ضرورت سے زیادہ مقدار میں دستیابی بھی ایک قومی ضرورت ہے۔اس خرابی سے نمٹنے کا امکان موجود ہے اور وہ یہ کہ آبی تحفظ کو قومی سلامتی کے بنیادی عنصر کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) مرتب کی گئی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن اِس میں اور دیگر حکومتی حکمت عملیوں کو بنانے والوں کو ہر مرحلے پر آبی تحفظ کو پیش نظر رکھنا چاہئے اُور اِسے معاشی خوشحالی سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زرعی ہے۔
اب یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ پانی اور معیشت ایک دوسرے سے کتنی قریب اور ایک دوسرے سے کس طرح جڑی ہوئی ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے اور آبی تحفظ کا مقابلہ نہ کیا گیا تو اس سے قومی معیشت بُری طرح متاثر ہوگی۔ مثال کے طور پر کپاس (روئی) پارچہ بافی (ٹیکسٹائل) کی صنعت میں استعمال ہونے والا ضروری خام مال ہے اُور کپاس کی پیداوار پانی کی کمی سے متاثر ہو رہی ہے جبکہ کم پیداوار کا مطلب پاکستان سے برآمدات میں کمی آنا ہے اور ایسی صورت میں اگر روپے کی قدر بھی بھی کمی ہو رہی ہو تو اِس سے لامحالہ افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
کپاس کی طرح چینی و گندم جیسی اہم اجناس کی پیداوار اُور دیگر فصلوں کا تعلق بھی پانی کی وافر یا کم سے کم حسب ضرورت دستیابی سے ہے۔ اِس بات کا تصور کرنا قطعی مشکل نہیں ہے کہ پانی کی قلت زرعی پیداوار میں کمی کی صورت ظاہر ہوگی۔ اگر ملک کے آبی تحفظ اور آبی ضروریات کے بارے میں مناسب رویہ اختیار کیا جائے تو اِس مسئلے کا حل تلاش کرنا ممکن ہے جبکہ آبی قلت کی صورت حقیقت سے انکار سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے پانی کی قلت اور آبی تحفظ کو سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئے۔