وہ قریب کے کسی کالج میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا ہے۔پھر اس نے لی بھی سائنس ہے۔جو قدرے مشکل ہے۔آرٹس میں آسانی ہے۔سب نے کہا سائنس کے مضامین مت لو۔ مگر اس کو ڈاکٹر بننے کا شوق ہے۔سو اس نے اپنی اس تمنا کیلئے حالات سے یہ مقابلہ کرنا چاہا۔ وہ مجھے ایک تقریب میں ملا تھا۔ا س کے ساتھ اچھی گپ شپ لگی۔ہماری ان سے قرابت داری ہے۔نظر اس کی بہت کمزور ہو چکی ہے۔اتنی کہ نظر ٹیسٹ کروانے گیا تو اسے سفید بورڈ پر مختلف چیزیں دکھائی گئیں۔ جن میں سے اس نے ہر ایک کی شناخت کرنا تھی۔اس کو ایک بطخ دکھائی۔پوچھا یہ کیا ہے تو اس نے ایک آنکھ پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ ہاتھی ہے۔ اس نے موٹے موٹے شیشوں والی عینک پہن رکھی ہے۔اب کی بار میں ا س سے ملا تو اس کے سر میں سفید بال جیسے چاندی کے تار ہوں جھلکتے تھے۔مجھے حیرت ہوئی۔شاید عین جوانی کے عالم میں نظر کی کمزوری کی وجہ سے ایسا ہو۔میں نے ان سے پوچھا یہ سفید بال اور اتنی ینگ ایج یہ کیوں۔اس نے جواب دیا تھوڑی ٹیشن تو نہیں۔میں مزید حیران ہوا۔ میں نے کہا یہ کیا چھوٹی سی عمر اور اس میں ٹینشن۔
کھاتے پیتے اور ٹھیک ٹھاک گھرکے ہو موٹر بنگلہ گاڑیاں بھی ایک چھوڑ دو دو۔پھرتمھیں کاہے کی پریشانی ہے۔ا س نے کہا بس جی سکون برباد ہو چکا ہے۔مجھے اور حیرانی ہوئی۔کہنے لگا بندہ زندگی سے تنگ آ جاتا ہے۔خدا خدا کرو بیٹا میں ا س وقت چلانا چاہتا تھا۔ میں نے صبر و تحمل سے اس کی بات سنی۔تاکہ کوئی مسئلہ اگر ہمارے کرنے کا ہو تو حل کر لیں۔مگر جو مسئلہ اس کو لاحق تھا وہ خاصا پریشا ن کن تھا۔اس کے اپنے خیالات ہیں اپنی رائے ہے۔کہا گھر کی دہلیز میں قدم رکھو تو کہتے ہیں اوہو لیموں او رمرچ کا کہنا بھول گ ئے۔یہ سودا رکھو اور لیموں لے آؤ۔سر کو جھٹک کر غصے کے عالم میں دوبارہ جاتا ہوں۔گھر کے سب کام کرتا ہوں۔ مگر اس کے باوجود طعنے دیتے ہیں کہ تم یہ نہیں کرتے وہ نہیں کرتے۔زندگی کامزہ غارت کر دیا ہے۔کہنے لگا ان باتوں پر ایک کالم لکھیں۔کیا لکھوں میں نے پوچھا۔اس پر اس کاانداز بہت دل کش تھا۔ اس نے کہا ان سے کہہ دیں کہ بچوں سے اتنا کام نہ کروائیں اور ان کو پڑھائی کر نے دیں۔
وہ گھر میں سب سے چھوٹاہے۔پھر جو سب سے چھوٹا ہو اس کی تو بس شامت ہی آ جاتی ہے۔یہ لاؤ وہ لاؤ۔یہ کرو وہ کرو۔ وہ بیچارا سارا دل گھر کے سودے ہی ڈھوتا رہتا ہے‘اس کی پڑھا ئی بھی غارت ہو جاتی ہے‘حالانکہ گھر میں اور بھی ہیں۔مگر سارا سودا سلف اسی کو لاناپڑتا ہے۔کیونکہ اس پر سب کا زور چلتا ہے۔ مگر اس کا زور کسی پر نہیں چلتا۔جو پڑھنے والے بچے ہیں ان کا یہ المیہ ہے کہ وہ ایسی صورتِ حال میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے سکتے۔پھر اور ستم یہ کہ وہ اگر سائنس پڑھ رہے ہوں تو بس گئے کام سے۔حالانکہ یہ کوئی خاص بات نہیں مگر غور کریں تو خاص بات ہے۔واقعی اس کا یہ دکھ اپنی جگہ توجہ کرنے کے قابل ہے۔
اس نے دکھ بھرے لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔ٹماٹر پیاز لے آؤں تو وہیں کھڑے کھڑے واپس بھجوا یا جاتا ہوں کہ اب گوشت اور روٹیاں لے آؤ۔سلاد کے پتے لانا بھول گئے تم۔میں کہتا ہو ں مجھے سلاد کے پتے لانے کو کس نے کہا تھا۔چلو خیر ہے کبھی خود بھی سمجھ سے کام لیا کروجاؤ جاؤ نا۔بڑی کوفت ہوتی ہے۔میں نے کہا یار سن تو سہی۔اگر یہ لوگ آپ کو نہیں کہیں گے تو اور کس کو سودا لانے کو ہدایت کریں گے۔ اس پر وہ دوبارہ گویا ہوا۔نہیں جی بات یہ نہیں ہے۔ایک ہی بار سودے کا بولیں نا۔اب اس دن میں گھرپہنچا اور سارا سودا دیا۔ مگر وہا ں بڑی بھابھی کی آواز کچن سے ابھری کہ چکن بھی کٹوا لا اور دہی بھی دیکھ۔
مجھے جو اس وقت تپ چڑھی میں بتلا نہیں سکتااس نے کہا کہ آپ کالم میں لکھیں کہ بچوں سے اتنا کام نہ کروائیں۔ان کو پڑھنے کاموقع دیں۔ کل کلاں آپ پھریہ نہ پوچھیں کہ تمہاری پڑھائی کہاں پہنچی مجھ سے اچھا رزلٹ بھی مانگتے ہیں او رمجھے پڑھنے کا موقع بھی فراہم نہیں کرتے۔میں اس کی باتیں سن کر اندر اندر ہنس بھی رہا تھا کہ کل کا بچہ اوراتنی باتیں۔میں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا۔باقی ہر بچہ کے گھر والوں کی مرضی کہ وہ کیا کرتے ہیں۔سودا سلف بھی تو گھر کا معاملہ ہے۔کیونکہ زندگی کی گاڑی کو بھی چلانا ہے۔