امریکہ کا نیا کھیل

اس وقت عالمی سطح پر دور رس اثرات کے حامل اقدامات ہو رہے ہیں اور بین الاقوامی طاقتیں دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں  ایک طرف اگر روس نے یوکرین کے ذریعے یورپ کے نقشے کو چھیڑا ہے تو دوسری طرف چین نے افریقہ سے لے کر ایشیاء  اور یورپ تک بیلٹ اینڈ روٹ اینی شیے ٹیو کے ذریعے ایسے منصوبے پروان چڑھائے ہیں کہ جس سے دنیا کامعاشی نقشہ بدل رہا ہے ان حالات میں امریکہ بھی روس اور چین کے مقابلے میں اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو تیز کر رہا ہے کیونکہ یہ تو مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا پر راج کرنے کا اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ اقتصادی ترقی ہے‘اس تناظر میں امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ جاپان بہت اہم ہے جہاں وہ ایک نیا اقتصادی منصوبہ پیش کر سکتے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن جنوبی کوریا کے تین روزہ دورے کے بعد جاپان پہنچ گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ خطے کیلئے ایک نئے اقتصادی منصوبے کا اعلان کریں گے، اور وہیں ان کی کواڈ گروپ کے رہنماں سے بھی ملاقات ہوگی۔امریکی صدر جو بائیڈن نے جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا سے ٹوکیو میں ملاقات کی ہے۔ ایشیا کے اس خطے میں، امریکہ پر اپنے سٹریٹیجک شراکت داروں کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنے کا دبا ؤہے اور اس لحاظ سے‘ بائیڈن کے اس دورے کو کافی اہم سمجھا جارہا ہے۔ٹوکیو میں بائیڈن نے  جاپانی وزیر اعظم کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور یوکرین پر روسی حملے کے وسیع تر پس منظر میں‘امریکہ جاپان کے دفاع کیلئے پرعزم ہے۔ٹوکیو کے مرکز میں واقع

شاہی محل میں جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا کے ساتھ بات چیت کے آغاز میں جو بائیڈن نے کہا، امریکہ اور جاپان کا اتحاد طویل عرصے سے ہند بحرالکاہل میں امن اور خوشحالی کا ضامن رہا ہے اور امریکہ جاپان کے دفاع کیلئے پوری طرح سے پرعزم ہے بائیڈن نے گزشتہ روز شہنشاہ کے محل میں جاپان کے شاہ ناروہیٹو سے بھی ملاقات کی۔صدر جو بائیڈن ٹوکیو میں اپنے قیام کے دوران ہی ’انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی‘ (آئی پی ای ایف)کے نام سے ایک نئے تجارتی منصوبے کا اعلان کرینگے۔اس معاشی منصوبے کے تحت‘ڈیجیٹل اکانومی، سپلائی چینز، صاف توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے شعبوں کے متفقہ معیارات کے مطابق‘سبھی شراکت داروں کو ایک ساتھ مربوط کرنیکی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم اس میں ٹیرف پر گفت و شنید کرنے یا مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔اس نئے گروپ میں کون کون سے ممالک شامل ہونگے‘ اس بارے میں بھی ابھی تک سرکاری سطح پر کچھ نہیں معلوم ہے۔ تائیوان نے پہلے یہ بات کہی تھی کہ وہ آئی پی ای ایف کا حصہ بننا چاہے گا، لیکن امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بائیڈن کے سفر سے پہلے واضح کر دیا تھا کہ تائی پے ان ممالک میں شامل نہیں ہو گا۔اس گروپ میں تائیوان کا انتخاب یقینی طور پر چین کو پریشان کر سکتا تھا، جس کا مطالبہ رہا ہے کوئی بھی ملک تائیوان کے ساتھ مکمل سفارتی روابط نہ استوار کرے اور نہ ہی اسے تسلیم کرے۔اس سے قبل 2015 میں بھی امریکہ نے ایک وسیع 'ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (ٹی پی پی)کے نام سے بھی ایک منصوبے میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا، تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے2017میں اپنے ملک کو اس منصوبے سے الگ کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ ہی پوری طرح سے ختم ہو گیا تھا صدر بائیڈن اور فومیو کشیدا اس موقع پر کواڈ گروپ کی میٹنگ میں بھی شریک ہوں گے۔کواڈ گروپ امریکہ‘جاپان بھارت اور آسٹریلیا پر مشتمل ہے ٹوکیو پہنچنے سے قبل بائیڈن جنوبی کوریا کے تین روزہ دورے پر تھے۔ امریکی حکام جاپان اور جنوبی کوریا کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور عسکری طاقت کے خلاف واشنگٹن کی کوششوں میں اپنا ساتھی گردانتے ہیں وہ ان دونوں ملکوں کو یوکرین پر روسی حملے پر ماسکو کو الگ تھلگ کرنے کیلئے مغربی قیادت والے اتحاد میں بھی اپنا شراکت دار قرار دیتے ہیں۔