نت نئی بیماری

پاکستان میں ایسی بیماریوں کی بھی تشخیص ہو رہی ہے جو اِس سے قبل یہاں نہیں پائی جاتی تھیں۔ اِس سلسلے میں پہلی مرتبہ 2 ایسی بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کو ”نواز شریف یکی گیٹ ہسپتال لاہور“ لایا گیا‘ جس کے جرثومے قبل ازیں صرف یورپ‘ امریکہ اور افریقیائی براعظموں میں پائے جاتے تھے۔ زیکا (Zika) اور مونکی پاکس (Monkeypox) نامی جرثوموں کی پاکستان میں آمد و پہلی مرتبہ تشخیص ’مارچ دوہزاراُنیس‘ میں ہوئی تھی۔ مذکورہ دونوں جرثومے مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتے ہیں۔ غیرملکی بیماریاں پاکستان پہنچنے اور پھیلنے کے اِس سلسلے کو روکنے کیلئے محکمہئ صحت کے حکام نے متعدد اقدامات کئے اور بیماریوں کی نگرانی کے دوران معلوم ہوا کہ 23 مختلف ایسی بیماریوں کی علامات پاکستان میں بھی ظاہر ہوئی ہیں‘ جو اِس سے قبل یہاں نہیں پائی جاتی تھیں البتہ محکمہئ صحت کے حکام میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر گردوپیش میں صفائی یقینی بنائی جائے تو موسم گرما کے دوران مچھروں اور مکھیوں سے پھیلنے والی بہت سی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے۔ صفائی چونکہ نصف ایمان بھی ہے اِس لئے ہر خاص و عام کا فرض ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری کے اندر اور باہر (گلی محلے‘ شہر‘ قصبے اور دیہی علاقوں میں) صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ گندگی پھیلانے سے اجتناب کرے اور اپنے گھر کی طرح‘ گھر سے باہر بھی گردوپیش کی صفائی کا خیال رکھے۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ صفائی رکھنے کیلئے حکومتی اداروں پر کلی طور پر انحصار کرنے کی عمومی سوچ اور روش بھی ترک ہونی چاہئے۔ شہری علاقوں میں گندگی ڈالنے (پھینکنے) کے مقررہ مقامات اور دیہی علاقوں میں گندگی (کوڑا کرکٹ‘ فضلہ وغیرہ) کو جلانے کی بجائے دفنانے کے ذریعے تلف کیا جانا چاہئے۔
نت نئی اور پہلے سے موجود بیماریوں سے بچنے کی واحد صورت ”صفائی کا اہتمام“ ہے۔ یہ نت نئی بیماریاں کس قدر بڑا خطرہ ہیں‘ اِسے جاننے کے لئے عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) کی جانب سے ’تیئس مئی‘ کے روز جاری ہونے والے ’الرٹ (تنبیہ)‘ کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ براعظم یورپ و افریقہ اور دیگر جگہوں پر بڑھتے ہوئے ’مونکی پاکس‘ مریض خطرے کی علامت ہیں۔ یہ مرض کبھی مغربی اور وسطی افریقائی ممالک کی حد تک محدود ہوتا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک دن میں ”مونکی پاکس“ کے تقریبا 80کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے اور گیارہ ممالک میں مزید پچاس ایسے کیسز کی تحقیقات جاری ہیں‘ جہاں مریضوں میں ”مونکی پاکس“ کی علامات پائی جاتی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ مونکی پاکس جرثومے کی وجہ سے بخار‘ جسم میں درد سمیت کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور اِس سے متاثرہ مریض کے جسم پر دانے نمودار ہوتے ہیں۔ اس مرض کا تعلق چیچک کے جرثوموں سے ہے لیکن یہ چیچک سے قدرے کم مہلک ہوتا ہے اور اِس سے متاثر ہونے والے مریضوں میں ایک فیصد اموات کا امکان ہوتا ہے جبکہ بروقت تشخیص و علاج کیا جائے تو ایک ماہ میں متاثرہ مریض شفایاب ہو سکتا ہے تاہم صحت کے حکام اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ پرہیز اور صحت مند طرز زندگی (بیماری سے بچاؤ کی تدابیر) اختیار کرنے سے کئی عمومی و خصوصی بیماریوں سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ’کورونا وبا‘ اور ’مونکی پاکس‘ کا موازنہ کریں تو کورونا وبا زیادہ مہلک ہے جس سے متاثرہ افراد میں شرح اموات دو سے ڈھائی فیصد ہے

اور اِس سے صحت یابی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ کورونا وبا انسانوں سے انسانوں میں سانس کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے لیکن ’مونکی پاکس‘ کا معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ اِس کے پھیلنے کی وجوہات میں مچھروں کے علاؤہ ’ہم جنس پرستی‘ کا عمل دخل بھی پایا گیا ہے۔ ’مونکی پاکس‘ کی حالیہ وبا غیر معمولی اور خطرناک بتائی جا رہی کیونکہ یہ ان ممالک میں بھی پائی گئی ہے جہاں یہ وائرس پہلے موجود (زیرگردش) نہیں تھا۔ طبی سائنسدان موجودہ صورتحال کی اصلیت (بنیاد) کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ 1980ء میں پہلی مرتبہ تشخیص ہونے کے بعد سے اِس جرثومے کی ہیت و شکار کرنے کی صلاحیت میں کس قدر تبدیلی آئی ہے۔عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے کسی بھی ملک میں بیماریوں کے اِن مذکورہ نئے جرثوموں کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جاری کردہ ہدایات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پُرہجوم مقامات پر جانے اور وہاں زیادہ دیر رکنے سے گریز کیا جائے۔ جہاں تک ’مونکی پاکس‘ کا تعلق ہے تو اِس بیماری کا علاج چیچک کیلئے استعمال ہونے والی اینٹی وائرل ادویات سے ممکن ہے تاہم اِس کی بروقت تشخیص ضروری ہے۔ عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے دوسری اہم بات یہ بتائی گئی ہے کہ کسی بھی مرض کی صورت میں ’از خود ادویات‘ لینے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ایسی صورت میں بیماری کا باعث بننے والے جرثومے اپنی ہیت تبدیل کر لیتے ہیں اور اُن میں قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی بھی مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی قریبی معالج (سرکاری یا نجی ہسپتال) سے رجوع کرنا چاہئے اور متاثرہ شخص اور اُس کے تیمارداروں کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ زیادہ لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور علاج کے دوران مریض الگ تھلگ رہنا چاہئے۔ بیماری کوئی بھی ہو‘ یہ نئی بات نہیں ہوتی بلکہ اِس کے بارے میں ادویات اور تشخیصی تحقیق موجود ہوتی ہے۔ طبی ماہرین اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کرہئ ارض پر موسمیاتی تبدیلیاں‘ درجہئ حرارت میں اضافہ بیماریوں کے وبا میں تبدیل ہونے اور اِن کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی بیماری کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ’کوویڈ وبا‘ کے بعد یہ بات زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ ہر خاص و عام بیماری کے حوالے سے جاری ہونے والے الرٹ پر نظر رکھے اور کسی بھی پرانی یا نئی وبا کے بارے میں جاری ہونے والے عالمی یا مقامی آگاہی پیغامات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے۔