تیرے بام و در کی خیر

صبح فجر کے بعدکا عالم تھا۔ آسمان سے ننھی ننھی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔مشرق کی اور کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ یوں کہ ابھی بارش ہو اور ابھی ہو۔پھر ہم اندرون پشاور کے اپنے پیدائشی علاقے میں ایک دوست کے ہمراہ گھر کے صبح دم ناشتے سے قبل وہاں چائے خانے کے باہر بچھی چارپائیوں پر بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایسے میں قہوہ کا مجمع سامنے لوہے کی بینچ نما میز پر دھرا تھا۔اس مصروف ترین علاقے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی رکشہ نہ تھا اور نہ ہی کوئی موٹر سائیکل سوار ٹراتا ہوا جھپاک سے گذرنے والا تھا۔سکون ہی سکون اور آرام ہی آرام۔یہ اندرونِ شہر کی سیر کا انتہائی مناسب وقت ہے۔اگر کوئی فرد رش او ربھیڑ بھاڑ کے عالم سے گھبراتا ہے تو اس وقت اپنے سوھنے پشاور کے اندرون علاقوں کی سیر کر سکتا ہے۔اپنی جنم بھومی کی گلیوں او رکوچوں کے نظارے کر سکتا ہے۔سب کچھ وہیں موجود تھا۔ اگر ایک مارکیٹ چھوڑ کر بیرون از شہر آئے تھے تو اب پانچ پلازے وہا ں اُ گ آئے تھے۔کوئی سرکاری دفتر یا ٹیکوں کا سنٹر اگر تھا تو اپنی اصلی حالت میں تھا۔ پھر مسجدیں جیسی تھیں ویسی ہی تھیں۔لیکن اس کے علاوہ اگر تبدیلیاں آئی تھی تو ان کا احساس اس وقت نہیں ہو رہاتھا۔ ہم اپنے شہر کو اپنی اصلی حالت میں جیسا کہ یہ شہر ماضی میں ہوا کرتا تھا خاموش او رپُرسکون شہر دلبراں دیکھ رہے تھے۔سورج ابھی نکلا نہیں تھا۔پھر اگر نکلا بھی ہو تو سر پر پہاڑوں کی شکل میں کھڑی بلند و بالا ہر ہر عمارت کے پیچھے کہیں روپوش ہوگا۔ مگر اس کی کرنیں قہوہ کی پیالیوں میں جیسے کسی نے گھول کر سامنے لا کر رکھی دی تھیں۔پشاور اپنی جگہ پر تھا۔ یہ محبوب شہر ایک انچ بھی اپنی جگہ سے سرکاہوا نہ ملا۔ہاں مگر جن کو نگاہیں ڈھونڈ رہی تھیں وہ شکلیں وہ چاند چہرے زیرزمین جا کر چھپ گئے تھے۔ کوئی ان میں ایک بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔اس وقت جو لوگ یہاں آتے جاتے ہوئے نظر آتے ان میں اگر کوئی ماضی کی یادگار ہو تو اب ا س کے بالوں میں وقت کے مصور نے سفید برش پھیر دیئے تھے۔ جن کی وجہ سے یہ چہرے پہچانے نہیں جاتے تھے۔

نئی پود تھی نئے چہرے تھے جوان بچے تھے نوعمر مگر وہ کہ جن کی تلاش نگاہوں کو تھی وہ نہ تھے۔ ان میں اگر کوئی زندہ بھی ہو تو وہ گھروں کے اندر موجودہوں گے۔مگر ان کی عمر دراز ہو شاید آرام کر رہے ہوں۔ پھر ایسے میں کہ جن کی تلاش ان آنکھوں کو تھی وہ نہ ہو ں تو بتلاؤ کہ پھر پشاور کہاں۔وہ جو اس شہر کے ماتھے کا جھومر تھے اور اس کے سر کا پٹکا تھے وہ تو اپنا ڈیرہ اٹھائے یا تو شہر ِ خموشاں میں شفٹ ہو چکے تھے یا پھر شہر کے باہر اپنے ذاتی مکانات لے کر وہاں زندہ و تابندہ مقیم تھے۔یہی وہ فضا تھی کہ جس میں پشاور کا ایک پشوری پُتر جو شہر کے باہر جا نشین ہو ا اپنے شہر کو پرانی او روہی ماضی والی حالت میں ڈھونڈ سکتا تھا۔ وہی سڑک وہی رستے وہی گلیاں مگر وہ لوگ نہ تھے جو یہاں سے کبھی گذرا کرتے تھے۔”وہ ایک دن کہ جو ہے عمر کے زوال کا دن۔ ہے اس بدن میں نمویاب کون دیکھے گا۔ میں روز اِدھر سے گذرتا ہوں لوگ دیکھتے ہیں۔میں کل اِدھر سے نہ گذروں گا کون دیکھے گا۔“وہ جو یہاں اس وقت دودھ والے سے دودھ او رملائی لینے کو ہاتھ میں ڈول اور پیالہ تھامے گذرتے تھے۔ وہ جو کاندھے پر دستر خوان ڈالے تندور کی طرف رواں دواں ہوتے۔وہ جن میں سے تو کچھ لواشیں لیتے اور کچھ تندور کے تختے پر سے روغنیاں سمیٹے واپس گھر کو رواں ہوتے۔ وہ لوگ اس وقت نہ تھے۔مگر ان کی یاد تو دل میں رہے گی۔ ان کی یاد کو کون سکا ہے۔صیاد تو اک دیوانہ ہے جو ان یادوں کے پنچھیوں کو روکتا ہے۔ انھوں نے ایک نہ ایک دن پنجرہ توڑ کر اڑ جانا ہوتا ہے۔پھر ان کی یادیں تو موٹی موٹی دنیا کی دیواریں پھلانگ کر اور توڑ کر لوہے کے بند دروازوں کے بیچ میں سے ہو کر آنا ہوتا ہے۔سو کالی گھٹا اور بوندا باندی کے اس وقت وہ تمام یادیں جو ان شہریوں کے ساتھ وابستہ تھیں سب ایک ایک کر کے بار بار آتی جاتی تھیں۔ وہ جو سیلا نی طبیعت کے تھے وہ بھی یاد آ رہے تھے جو سامنے تندور والے سے اپنے حصے کی ایک روغنی اٹھاکر چلے آتے۔ وہ جو روغنی کوصبح سمے اس وقت قہوہ کے ساتھ نوش فرماتے۔ہائے وہ لوگ کہ جن سے جہاں کی رونق تھی نہ رہے۔ اب تو وہ شہرکی آبرو وہ سر کا تاج دور کہیں جا بسے ہیں۔ یاروں نے اتنی دور بستیاں بسائی ہیں کہ اب ان تک پہنچنا فوری طور پر ممکن نہیں رہا۔وہ اپنے ساتھ والے ہمسائے تھے وہ تو دور پا رکہیں  جا بسے ہیں۔ان میں سے کوئی رنگ روڈ پر اور اس کے پرلے کنارے پر او رکوئی ورسک روڈ او رگل بہار اور حیات آباد میں جا مقیم ہوئے۔ مگر تبدیلی تو آ کر رہتی ہے۔