جہاں تک روس کا تعلق ہے تو سابقہ سوویت یونین نے بھی کئی ممالک میں انقلاب برپا کئے، تاہم چین نے دونوں طاقتوں سے یکسر مختلف پالیسی اپنائے رکھی اور وہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کی بجائے حکومتوں کیساتھ تعلقات کو معاشی بنیادوں پر استوار کرنے پر زور دے رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دو ممالک کی معیشتیں مشترک ہوں تو وہ لازمی طور پر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ معاشی بنیادوں پر استوار تعلقات ہی دو ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات ہوتے ہیں‘ یعنی ایک طرح سے وہی قابل اعتبار دوست ہے جو کسی بھی ملک کی بنیادی معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرے۔پاکستان میں سی پیک اور افریقہ و یورپ میں بیلٹ اینڈ روٹ اینی شئے ٹو جیسے منصوبے اس کی بہترین مثال ہیں۔
جن کے تحت ممالک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے ایسی باہمی مشترک معیشتیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں کہ جن کے ذریعے چین دنیا بھر میں اپنا معاشی اثر رسوخ میں اضافہ کر سکے اور چین کا مطلوبہ ہدف اس لئے حاصل ہونے میں آسانی نظر آرہی ہے کہ اس سے میزبان ممالک کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے‘اس اعتبار سے امریکہ ناقابل اعتماد اور چین قابل اعتماد دوست ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ خبر تشویشناک ہے کہ سقوط کابل کے بعد تین لاکھ افغانی پڑوسی ممالک فرار ہوئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے زیادہ تر سابقہ افغان حکومت کے وفادار یا پھر دوسرے الفاظ میں امریکہ کے وفادار تھے۔
اتنی بڑی سطح پر بغیر کسی دستاویزی ریکارڈ کے کسی بھی ملک میں اس کے ہمسایہ ملک کے باسی اگر نقل مکانی کریں تو جس ملک میں وہ پناہ لیں اس کیلئے وہ امن عامہ کے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کو بشمول پاکستان متحاط رہنا چاہئے۔اس کے بعد اب تذکرہ ہو جائے ایک عالمی مسئلے کا جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے تاہم جنوبی ایشیاء بھی اس سے بڑے پیمانے پر متاثر ہے۔ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث جنوبی ایشیائی ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے بہت سے افراد کے کاروبار شدید متاثر ہوئے ہیں‘بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لاکھوں افراد کو متاثر کر رکھا ہے۔
پاکستان کے کئی شہروں میں بھی گرمی کی شدید لہر نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ بھارت، انڈونیشیا اور چین سمیت پاکستان کا شمار ان انتہائی حساس ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہریوں کی بہت بڑی تعداد کو شدید گرمی سے جڑے خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں گرمی کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ گرمی کی تازہ لہر میں ملک کے شمالی علاقوں میں کم از کم دو بڑے پل سیلابی پانی سے تباہ ہوگئے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیس کے صرف ایک فیصد کے اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن ملک کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں ہوتا ہے‘ اربن پلاننگ کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں انتہائی غریب افراد گرمی کی لہر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں‘گرمی کی لہر کی شدت شہر میں کنکریٹ کی بلند عمارتوں کے باعث زیادہ ہو گئی۔ سڑکوں پر گاڑیوں کے رش اور درختوں اور ہریالی میں کمی ملک کے بڑے شہروں کو مزید گرم بنا رہے ہیں‘اس مسئلے کا حل ایک یہ بھی ہے کہ شہر میں ایسی عمارتوں کی تعمیر کیا جانا چاہئے جن کی چھتیں گرمی کی تپش کو روک سکیں۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کڑے اقدامات بروقت نہ اٹھائے گئے تو افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کئی ممالک شدید موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات کا سامنا کریں گے۔اس طرح مستقبل کے رہائشی منصوبوں میں درختوں اور پارکوں کا خاص خیال رکھنا ہوگا، کیونکہ اس وقت آبادی میں اضافے کے ساتھ رہائشی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے نت نئے رہائشی منصوبے سامنے آرہے ہیں تاہم ان میں موسمیاتی تبدیلی کے لاحق اثرات کے حوالے سے کم ہی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
یورپ کے کئی ممالک خاص کر جرمنی میں ایسے ماحول دوست شہر بسائے جار ہے ہیں جہاں گھروں کی چھتوں پر بھی باغات اور درخت موجود ہیں، شہر کو اوپر سے دیکھیں تو ایک جنگل کا گمان ہوتا ہے۔ درختوں اور سبزے کے باعث یہ ماحول دوست شہر گرمی اورسردی دونوں کا مناسب انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی نئے شہر آباد کرنے کی منصوبہ بندی میں ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسے ماحول دوست عمارتیں تعمیر ہوں کہ جن میں رہائش پذیر افراد کو موسمیاتی تبدیلیوں یا موسمی شدائد کا سامنا کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔اس حوالے سے متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ عوام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کریں۔