کمزور دل حضرات نہ دیکھیں 

یہ دل خراش ویڈیوز بھی ایک وبا ہے جو ایک سے دوسرے کو لگ رہی ہے‘ پھر لوگ اس پر شرماتے بھی نہیں ہیں۔ ہم جتنا ترقی کر رہے ہیں اتنا ہی خلقِ خدا کو آزار بھی پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اب موبائل کو لیں اتنی ترقی کہ حد سے زیادہ ترقی ہے۔ صرف موبائل کو زندگی سے نکال دیں تو روزمرہ مصروفیات کا حسن اور اس کی دلکشی شیشہ کی دیوار ایک چھناکے سے گرے گی۔جس کے نیچے ہم خود کو زخمی کر لیں گے۔ مگر کیا کریں اس کو استعمال کر کے ہم نے کون سا سُکھ پایا ہے۔ مگر استعمال تو کرنا پڑتا ہے۔ہاں ہر آدمی کا موبائل کو اپنی زندگی میں دخل دینا مختلف ہے۔جو گانے وغیرہ ڈرامے اور جانے کیاکیا دیکھتے ہیں۔ وہ تو اس تحریر میں مراد نہیں ہیں۔
میں ان موویوں کی بات کر رہاہوں۔ جو مختلف وٹس ایپ گروپ میں سے ہو کر بندے کی نگاہوں میں جیسے کرچی کرچی شیشہ زخم زخم کر دیتی ہیں۔جہاں تک معلومات حاصل کرنا کسی کی کمزوری ہے یا مجبوری تو وہ اس آزار میں ہمہ وقت دل کو اداس رکھتا ہے وٹس ایپ میں جہاں تک تحریر کی بات ہے تو اس پر کیا پابندی لگانا‘مگر جو خبریں مووی کے ذریعے آتی ہیں۔وہ بہت دل آزار ہو تی ہیں۔ایک تلخ حقیقت کو سامنے لایا جاتا ہے۔جس کو بندہ نہیں دیکھنا چاہتا مگر اس کو دیکھنا پڑ تا ہے۔ 
وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے کا سین اس کی آنکھوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔پھر وہ اس کو بھلائے نہیں بھولتا۔یہ انسان کو حقیر کر کے دکھلانے کے برابر ہوتی ہیں۔یہ نگاہوں میں کانٹوں کی طرح چبھتی ہیں۔مگر چند دنوں کے بعد یہ کیفیت نہ رہے تو پھر اس وقت ایک اور مووی وصول ہو جاتی ہے’انسان اب اتنا بھی بے توقیر ہو جائے گا اس جدید زمانے میں کبھی ایسا سوچا نہ تھا’اس کیلئے کچھ کرنا چاہئے ’ان موویوں کو اگر دل گردے والا بندہ دیکھتا ہے تو کسی اور کو ارسال نہ کرے ’کیونکہ جس کو آپ نے بھیجی اس کی زندگی کو تو اجیرن نہ بنائیں۔
 اسکی حساس زندگی میں زہر نہ گھولیں کمزوردل حضرات تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں ’یہ اسی لئے کمزور دل ہوتے ہیں کہ وہ انسان کو اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتے۔مگر جو سخت دل ہو تے ہیں وہ اس قسم کی دل کو تکلیف پہنچانے والی موویا ں نہ صرف خود دیکھتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی فخر کے مارے بھیجتے ہیں۔ تاکہ اولیت کا تاج ان کے سر پر سج جائے ’کل کوئی کہہ سکے کہ مجھے یہ مووی فلاں بندے نے پہلی بار بھیجی ہے’یوں اس بندے کو اعزاز حاصل ہو جائے۔
مگر دوسروں کی دل آزاری کر کے بھیجی جانے والی ویڈیو کے ذریعے اگر کوئی اعزاز حاصل ہوتا ہے تو وہ کیا اعزاز ہوگا۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے’ویڈیو بنانے والے کو بھی ذمہ دار شخص ہونا چاہئے۔ اب ہر واقعہ کی ویڈیو بننے لگی ہیں۔بعض اوقات کسی واقعہ کو چھوڑ بھی دینا اچھا ہے۔ ایک شہری کو ٹینش نہ تھی۔ مگر دل میں درد اٹھتا تھا’وہ قریب کسی ہسپتال میں پہنچا۔وہاں ای سی جی ہوئی خون کا ٹیسٹ ہوا اور ساتھ ایکو ہوئی۔مگر تینوں ٹیسٹ صاف تھے ’ڈاکٹر نے اس کو بہت کریدا کہ آپ کو ٹینشن کا سامناہے ’مگر وہ مریض ایک ہی بات پر مصر رہا کہ مجھے کوئی ٹینش نہیں ’ڈاکٹر نے اس کو پھر بھی ذہنی سکون کی گولیاں لکھ دیں ’کیونکہ یہ نفسیاتی معاملات ہیں۔
 جس کو ٹینش ہو اس کو خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی ٹینشن ہے’یہ واقعہ اسی قسم کی موویوں کے حوالے سے درج کر رہا ہوں۔اس لئے مریض کا کہنا بھی بجا تھا اور ڈاکٹر کا اس کو ذہنی سکون کی دوا دینا بھی درست تھا۔ بعد میں معلوم ہوا اوروہ بھی گھر جا کر کسی موقع پرمریض کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا جس کے بارے میں اس کو خود معلوم نہ تھا’کہہ رہا تھا کہ یار یہ ویڈیوز بھیجی جاتی ہیں ’موویا ں بھیجنے والے کو احساس ہونا چاہئے کہ یہ نہ سوچے کہ ہر چیز بھیجنا ہے’بلکہ یاد رکھے کیا نہیں بھیجنا ’ہر آدمی تو اعصاب کے لحاظ سے طاقت ور نہیں ہوتا۔
’بعض جسمانی کمزور لوگ اعصابی او رنفسیاتی لحاظ سے سخت دل ہو تے ہیں۔پھر جو صحت مند دکھائی دیتے ہیں ان میں سے بعض حد درجہ کمزور دل واقع ہوتے ہیں۔یہ بھی ایک نفسیاتی معاملہ ہے کہ کون کمزور دل ہے اور کون نہیں ’پھر کوئی اگر کوئی دل کاکمزور ہے تو کیوں ہے ’وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ دل کے لحاظ سے کمزور ہوا۔