قومی بینکوں نے رواں سال کے پہلے تین ماہ (جنوری تا مارچ) کے دوران غیرمعمولی منافع کمایا ہے اور کاروباری حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے جاری سہ ماہی (اپریل سے جون) بھی بھاری منافع کا امکان ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جب ہم بینکوں کے منافع کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد بینک صارفین کو دی جانے والی خدمات و سہولیات کی وصول کی جانے والی قیمت بھی ہوتی ہے‘ جس کی شرح غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔ ٹاپ لائن سکیورٹیز نامی ادارے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے مارچ دوہزاربائیس کے دوران پاکستان سٹاک یکسچینج میں درج ملک کے بیس بینکوں کے اعلان کردہ منافع سے متعلق نتائج کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینکوں نے اپنے اخراجات اور ٹیکس ادا کرنے کے بعد مجموعی طور پر 80 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا جو اکتوبر سے دسمبر دوہزاراکیس کے دوران 67ارب روپے تھا اور یہ منافع گزشتہ سہ ماہی سے اُنیس فیصد زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں بینکاری کا شعبہ سالانہ اٹھائیس فیصد کی شرح سے منافع کما رہا ہے۔
بینکوں کو اتنا منافع کمانے میں جس چیز نے مدد کی وہ نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضہ جات ہیں۔ اِن قرضوں پر شرح سود سے بینکوں کا منافع بڑھا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح اور معاشی مندی جاری ہے لیکن بینک شرح سود کی صورت اپنے منافع میں کمی کرنے کو تیار نہیں جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرضوں کا ایک تناسب بغیرسود قرضہ جات ہونے چاہیئں تاکہ خود روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہو اُور عوام کی قوت خرید بڑھے اُور یہی مہنگائی کا واحد قابل عمل و پائیدار حل ہے۔کورونا وبا کے بعد سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ”قرض فروغ مہم“ چلانے کا حکم دیا اور اِس حکمت عملی کے نتیجے میں بینکوں نے فیاضانہ قرض دیئے اور اگرچہ اِس بارے میں بینکوں کے سخت تحفظات بھی تھے لیکن بہرحال قرض دیئے جاتے رہے۔
سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق بینکوں کے قرض کی شرح اور ڈیپازٹ کی شرح کے درمیان فرق (مارچ دوہزاربائیس میں) 244 بنیادی پوائنٹس کا تھا جو مارچ دوہزاراکیس میں 248 تھا۔ (یہ حساب زیرو مارک اپ ریٹ اور انٹر بینک ریٹ اور حالیہ ڈیپازٹ ریٹ کو چھوڑ کر تازہ قرض کی شرح کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس میں زیرو مارک اپ اور انٹر بینک ریٹ شامل نہیں ہوتے)رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر زیادہ پیداوار کے علاوہ نجی شعبے کے قرضوں پر زیادہ شرح سود اور فراہمی کی ضروریات میں کمی نے بینکوں کیلئے اپنی خالص سود کی آمدنی میں اضافہ ممکن بنایا اور اس کے نتیجے میں بینکوں نے زیادہ منافع کمایا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ انہی عوامل سے بینک اپنے این آئی آئی میں مزید اضافہ کریں گے اور دوسری اور تیسری سہ ماہی میں بھی قرض دیتے رہیں گے جو اِن کے منافع کا بنیادی ذریعہ ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ رواں مالی سال کا مالی خسارہ چار کھرب کے ابتدائی تخمینے کے مقابلے قریب ساڑھے چھ کھرب روپے تک ہو سکتا ہے۔ رواں مالی سال کی اِس آخری تین سہ ماہی میں خسارہ صرف ڈھائی کھرب رہا لیکن روایتی طور پر گزشتہ سہ ماہی میں پاکستان میں مالی خسارہ بڑھ گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بینک سرکاری قرضوں کو ترجیحی بنیادوں پر دیں گے اور چونکہ اپریل سے جون میں حکومتی قرضوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اس لئے بینکوں کو زیادہ منافع بھی ملے گا جس سے رواں سہ ماہی کے دوران بینکوں کو سود سے حاصل ہونے والی زیادہ آمدنی اور منافع ملے گا۔ اِسی طرح نجی شعبے کی طرف سے قرض حاصل کرنا بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
دس ماہ سے کچھ زیادہ عرصے میں بینکوں نے نجی شعبے کو تقریبا ایک اعشاریہ تین کھرب روپے مزید قرض دیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ چارسو اکیس ارب روپے قرض دیا گیا تھا۔ سٹیٹ بینک نے شرح سود بھی بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے سرمایہ کار اور صارفین پر مشتمل نجی شعبے کیلئے بینکوں سے قرض لینا سودمند نہیں رہا لیکن شرح سود میں اضافے کا اثر ایک سہ ماہی بعد ہی سامنے آئے گا۔ فی الوقت قرضوں پر منحصر پاکستان کی معیشت بظاہر تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ بینکوں کا منافع بڑھ رہا ہے جبکہ عوام کیلئے روزگار کے مواقعوں کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیریقینی دکھائی دے رہا ہے۔