بلا سود بینکاری

سود سے پاک بینکاری کے حوالے سے بیانات تو بہت ملتے ہیں لیکن اِس سلسلے میں خاطرخواہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ اِسی سلسلے کی ایک کوشش بینکنگ کے پورے نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے سے متعلق بھی تھی۔ جس کے تحت بینک سے لفظ سود کو ختم کرکے اِس کی جگہ منافع کا لفظ استعمال کیا جانے لگا اور بس۔ صرف یہی نہیں بلکہ بینکوں کو حکم دیا گیا کہ وہ صارفین کی جمع کردہ رقومات (ڈیپازٹ) کو ایک مخصوص شرح سے سود ادا کرنے کے بجائے اپنے نفع و نقصان میں اِسے شریک کر لیں۔ تب سے بینک اپنا سالانہ حساب کتاب کرکے جو منافع آتا ہے اس کا ایک حصہ ڈیپازٹ رکھنے والوں میں خاص شرح سے تقسیم کرتے ہیں۔ ڈیپازٹ سائیڈ پر بینکوں سے سود کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن مسئلہ بینکوں کی جانب سے فنانسنگ یعنی قرض دینے کا ہے۔ اس کیلئے بھی گنجائش رکھی گئی کہ قرض لینے والا اگر چاہے تو نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر یہ سہولت حاصل کر سکتا ہے۔
بینکوں کی غیر سودی قرض (فنانسنگ) کی طلب بہت ہے۔ تقریباً ہر صارف کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ اُسے سود کے بغیر قرض ملے، لیکن جب اسے بتایا جاتا کہ اسے کاروبار کا باقاعدہ اکاؤنٹ رکھنا پڑے گا جس کا ہم ششماہی آڈٹ کریں گے اور اپنی فنانسنگ کے تناسب سے منافع میں سے حصہ لیں گے‘ تو ان کے جذبے پر اُوس پڑ جاتی اور کہتے کہ پرانے طریقے پر ہی قرض دے دیں۔ یوں سالہا سال سے جاری اِس بلاسود قرض کے طریقے سے گنتی کے صارفین نے فائدہ اُٹھایا جبکہ اکثریت سود کے ساتھ قرض لینے ہی کو ترجیح دیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر قرض لینے والا اس بات پر راضی ہو بھی جاتے تو قرض دینے والے ادارے کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہزاروں گاہکوں کے کاروبار کا ششماہی آڈٹ کرے‘ ان کا تفصیلی حساب کتاب رکھے اور ہر ایک کے منافع کا تعین کرکے اپنا حصہ نکالے۔
کسی ترقی پذیر ملک میں جہاں سرمائے کی شدید قلت ہوتی ہے اور کرنسی کی قدر گھٹتی جاتی ہے وہاں بلا سود کے قرض دینا ممکن نہیں ہوسکتا اور یہی پاکستان کی موجودہ صورتحال ہے۔ دوسری طرف سود کی حرمت اور اس سے پاک معیشت پر مولانا مودودی کا گہرا تدبر بھی موجود ہے جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملک کے معاشی اور سیاسی نظام کو مکمل اسلامی اصولوں پر استوار کئے بغیر سود کا خاتمہ ممکن نہیں۔ وہ بینکنگ کے متبادل کے طور پر مضاربہ‘ مشارکہ جیسے طریقوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مطمح نظر ایک ایسا فلاحی معاشرہ ہے جہاں اوّل تو کسی کو قرض کی ضرورت ہی نہ پڑے اور اگر پڑے تو حکومت اور معاشرے کی طرف سے اسے بلا سود قرض آسانی سے دستیاب ہو۔ 
وہ بینکوں کا جو نظام تجویز کرتے ہیں اس میں نہ تو قرضوں پر کسی بھی نام سے اضافی رقم لینے کی گنجائش ہے اور نہ بینک میں رکھے گئے ڈپازٹس پر بینک کوئی منافع دے سکیں گے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ لوگ اپنی بچتیں رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کریں یا ضرورت مندوں کو قرض حسنہ دیں۔ جب لوگ بینکوں سے ڈیپازٹس پر منافع نہیں لیں گے تو بینک بھی ضرورت مندوں کو قرض حسنہ دے سکیں گے تاہم جو لوگ بینکوں کے ذریعے منافع حاصل کرنا چاہیں وہ اپنا سرمایہ بینکوں کے ذریعے کسی کاروبار میں شرکت کی بنیاد پر لگائیں گے اور اس کاروبار کے منافع میں شریک ہوں گے۔ جب تک پوری معیشت (ہر کاروبار زندگی)‘ معاشرت اور سیاست کو از سرِ نو ترتیب نہیں دیا جائے گا اُس وقت تک سود کا خاتمہ نہیں ہوگا اور کون نہیں جانتا کہ نظامِ معیشت کو نافذ کرنے کیلئے نہ صرف صالح قیادت بلکہ صالح عوام کی بھی ضرورت ہے یعنی ایسے لوگ جو نفع اندوزی کے بجائے نفع رسانی پر یقین رکھتے ہوں اور ظاہر ہے پاکستان میں ایسے پرخلوص معاشرے اور ایسی پرخلوص قیادت کے جلد یا بدیر دستیاب ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔