شہرکی جس سڑک پر درخت ہوتے اسے ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا۔ علاوہ اس کے دوسرے شہرو ں میں بھی جہاں مال روڈ ہیں۔ان کو بھی ٹھنڈی سڑک کہتے تھے۔مگر اب ان کا نام گذشتہ کئی برسوں سے مال روڈ پڑ گیا ہے‘یہ ٹھنڈ چھاؤں سے ہے۔ جہاں درختوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ ان چھتناروں کی چھاؤں کی وجہ سے یہا ں ہمہ وقت ٹھنڈک رہتی تھی۔ شہر کے اندر پہلے تفریح کے مقامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس لئے شام کو شہری ٹہلائی کو نکلتے تو گرمی کے موسم میں ٹھنڈی سڑک کی سیر کو چلے جاتے۔گھنٹہ بھر کی واک میں بہت سکون ملتا۔کوئی ٹینشن نہیں ہوا کرتی تھی۔ جاؤ تو جاتے جاؤ پھر جب مرضی ہو مڑ کر واپس آؤ۔ کسی کو کسی شئے کی پروا ہی نہ تھی۔ مہنگائی نہ تھی۔ عام بندہ ہر شئے خرید سکتا تھا۔ مگر اب خاص بندہ بھی عام شئے خریدنے میں شرماتا اور ہچکچاتا ہے۔وہ ٹھنڈی سڑکیں اب بھی ہیں مگر لوگوں کے دریا کا رخ یہاں سے موڑ کاٹ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہو چکا ہے۔جہاں ہر چند درخت نہ سہی مگر سیر و تفریح کے مواقع بہت خوب ہیں۔جہاں درخت ہوتے ہیں وہا ں درختوں کی وجہ سے ٹھنڈک ہوتی ہے۔جس سڑک پر درخت کی چھاؤں ہو وہاں ٹھنڈک محسوس ہو تی ہے۔
اب بھی وہ علاقے جہاں سڑکوں پر اور اس کے قرب و جوار میں درختوں کی چھپر چھایا ہے وہاں سے گذریں تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔شہر میں اس قسم کی سڑکیں اب بھی موجود ہیں جہاں ہمارے لوگوں کے گھر ہیں۔ہم دن بھر کام کاج سے شہر بھر کاچکر لگا کر اپنے علاقوں میں رسائی کریں تو ا س سڑک پرجہاں سبِزہ او ردرخت ہوں وہاں پہنچ کر دل کو ایک راحت محسوس ہوتی ہے۔مگر یہ شہر کے باہر کے رہائشی انجوائے کرتے ہیں۔شہر کے اندر کے لوگ عمارتوں کی وجہ سے اور آدمیوں کے رش کے کارن اس ٹھنڈک سے محروم ہیں۔شہر میں بھی کہیں کہیں درخت پائے جاتے ہیں۔مگر وہ آہستہ آہستہ نئی تعمیر کیلئے کاٹے جا رہے ہیں۔پھر اس سے پہلے بھی بہت بیدردی کے ساتھ راستے ہموار کرنے کیلئے اپنی راہ سے ہٹا دیئے گئے۔ ٹھنڈی سڑک کی سیر کرتے وقت بہت اچھا محسوس ہوتا۔یہاں سے جارہے ہوں تو سامنے سے اپنے واقف کار رشتہ دار آ رہے ہوتے۔لیکن اب وہ عالم نہیں رہا۔بچے جھولے لینا چاہتے ہیں۔ٹھنڈی سڑک کے اطراف میں بھی پارک ہیں۔
ان پارکوں میں پہلے بہت رش ہوتا تھا۔ہمارے شہر کے پیارے اب شہر کے اندر بنے ہوئے پارکوں کے جدید جھولوں کیلئے بچوں کو یہاں لے کر آتے ہیں او ران کو جھولے جھلا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔لوگ گاڑی میں بیٹھیں تو سیدھا کاغان ناران نکل جاتے ہیں۔اگر اس طرف کو رخ نہ ہو تو مری اور نتھیاگلی وغیرہ میں جا اُبھرتے ہیں۔اب گاڑیوں کا بندوبست کرایہ پر ہو یا ذاتی ہوبہت زیادہ ہو چکا ہے۔اب شہری سادہ دل نہیں رہے بہت ہوشیار ہو چکے ہیں۔اب ان کے دوسرے شہروں کے ٹھنڈے مقامات پر ٹھکانے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں اپنے گھر ہیں اور ہوٹلوں میں سہولیات ہیں۔ ان دنوں تو سوات اور اس کے اطراف و جوانب کی طرف رخ زیادہ ہے۔کیونکہ مری اور گلیات کے مقابلے میں یہ دیہات کے علاقے شمار ہوتے ہیں۔
جہاں مری کے مقابلے میں مہنگائی نہیں ہے۔یہ لوگ سوات میں جا کر وہاں کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔پھر دو چار دن رہ کر وہاں سے لوٹ آتے ہیں۔بندہ یہاں دو چار دن انجوائے کر سکتا ہے۔ ہاں جو زیادہ حیثیت والے ہیں وہ تو کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ پھر ان میں زیادہ تر اپنی بھاری جیب کی مدد سے مری نکل جاتے ہیں کیونکہ ہم نے خود شہر میں سڑکو ں کے کناروں پر سنتری جیسے کھڑے ہوئے درختوں کو راستے کشادہ کرنے کیلئے اکھاڑ کر چند روپوں میں بیچ دیا ہے۔اگر اسی رفتار سے درختوں کی کٹائی جاری رہی تو اگلے چند سالوں میں پشاور بالکل گنجا ہو جائے گا۔ اس کیلئے اسمبلی میں کچھ نہ کچھ قانون سازی ہونی چاہئے۔تاکہ ہم درختوں کو کاٹتے وقت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔