روس یوکرین تنازعہ

اس وقت عالمی منظر نامے پر روس یوکرین تنازعہ چھایا ہو اہے کیونکہ اس کے دنیا کے تمام ممالک پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کسی ملک کو اگر غذائی قلت کا سامنا ہے تو کسی کو پٹرول اور کسی کو کاغذ کا۔ کیونکہ یہ تمام اشیاء روس یا یوکرین سے دنیا کے زیادہ تر ممالک خرید رہے تھے۔دوسری طرف روس نے یوکرین کے اہم علاقوں پر حملوں کا سلسلہ تیز کردیاہے اوریوکرین کی فوج اب تک کے سب سے زیادہ دباؤ میں ہے اور یوکرینی فوج ڈونباس خطے کے شمالی حصے لوہانسک میں بظاہر ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے۔یوکرین کے فوجی سربراہ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ روس اپنی فوج کو ایک اور دباؤ بنانے کیلئے مرکوز کر رہا ہے۔گذشتہ چند روز میں روسی فوج نے ڈونباس کے محاذ پر اپنے حملوں کو تیز کر دیا ہے اور حتمی حملے سے پہلے 80 ہزار کی آبادی والے شہر سیویرودونتسک کا محاصرہ کرنے کے قریب پہنچ رہی ہے۔ہمیشہ کی طرح یوکرینی شہری اپنے سخت عزائم کے ساتھ لڑ رہے ہیں، انھیں اس جنگ کے لیے کمک پہنچ رہی ہے۔انھوں نے روسیوں کی پیش قدمی کو سست تو کر دیا ہے لیکن ان کو آگے سے نہیں روک پائے ہیں۔
 روسی بھاری جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک مقام پر یوکرینی فوجی یونٹ 240 جوانوں کے ساتھ محاذ پر گئی لیکن صرف تقریبا 140 جوانوں کے ساتھ باہر آئی، باقی یا تو مارے گئے، یا زخمی ہوئے اور پکڑے گئے۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روسی ڈونباس میں روزانہ تقریبا 100 یوکرینی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہوں گے۔سیویرودونتسک کے قریب ہی باخموت نامی ایک ایسا قصبہ ہے جو آہستہ آہستہ جنگ کی نذر ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے روسی فوجی اس قصبے سے تقریبا تین میل دور ہیں لیکن یہ علاقہ ان کی زد میں ہے۔ اگلے ہفتے وہ اور بھی قریب ہوسکتے ہیں۔جن شہریوں کے پاس کہیں جانے کا آپشن تھا وہ چلے گئے ہیں۔مارچ کے مہینے میں کیف میں نظر آنے والا فتح کا جوش، شان و شوکت اور قربانی ڈونباس کے کھنڈرات میں دور دور تک محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ماریو پول کے بعد اب ڈونباس میں روس فتح کا اعلان کر سکتا ہے۔
اس کے بعد روس ڈونباس کے جنوب میں اپنی سرحد کے ساتھ اور یوکرین کی بیشتر ساحلی پٹی کے ساتھ پھیلے ہوئے علاقے کو کنٹرول کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ صرف سفارت کاری ہی جنگ کو ختم کر سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کی یہ شرط ہے کہ روس حملے سے پہلے والی پوزیش پر واپس جائے۔تاہم امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں اس کے اتحادی روس کو مستقل طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی اس طرح یوکرین روس،امریکہ اور مغربی ممالک کے درمیان جنگ میں پھسا جارہاہے۔ اگر یوکرین کے صدر ہوش سے کام لیتے تو ہر گز امریکہ اور نیٹو کیلئے اپنے ملک کو جنگ میں نہ جھونکتے۔ روس نے امریکہ اور نیٹو کو اپنی سرحدات سے دور رکھنے کیلئے یوکرین کو نشانہ بنایا اور ایسے حالات میں امریکہ نے فوجی امداد تو کی تاہم جنگ میں روس کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی یعنی یوکرین کو تنہا روس کے مقابلے میں چھوڑ دیا۔ایک طرف روس نے یوکرین مسئلے پر امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف نیٹو میں شکست و ریخت کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ترکی کا اصرار ہے کہ اگر نورڈک ممالک سیکورٹی سے متعلق اس کے خدشات دور کرنے میں ناکام رہے تو وہ ان کی نیٹو میں شمولیت کا عمل روک دے گا۔
 اسی سلسلے میں سویڈن اور فن لینڈ کے حکام نے انقرہ میں ترک حکام سے بات کی ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کے وفود 2 گزشتہ روز انقرہ میں تھے تاکہ ان کی نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت سے متعلق وہ ترکی کے اعتراضات کا ازالہ کر سکیں۔ترکی کا موقف ہے کہ یہ ممالک علیحدگی پسند  کردوں کے حامی ہیں، اس لیے جب تک وہ سکیورٹی خدشات سے متعلق اپنا موقف واضح نہیں کرتے، اس وقت نیٹو میں ان کی شمولیت کی مخالفت کی جائے گی۔ انقرہ کا دعوی ہے کہ یہ گروہ اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔بات چیت کے لیے انقرہ پہنچنے والے وفد کی قیادت سویڈن اور فن لینڈ کے نائب وزرا خارجہ کر رہے تھے، جنہوں نے اپنے ترک ہم منصب سیدات اونال اور صدر طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم قالن سے صدارتی محل میں ملاقات کی۔تقریبا پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں قالن نے کہا کہ جہاں تک ہتھیاروں کی برآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کی بات ہے، تو اس حوالے سے ترکی نے دونوں ممالک کی جانب سے "مثبت نقطہ نظر" کا مشاہدہ کیا ہے۔تاہم، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ترکی اس وقت تک ان دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت پر رضی نہیں ہو گا جب تک کہ انقرہ کے اعتراضات کو دور کرنے  کیلئے مخصوص اقدامات نہ کیے جائیں۔
ابراہیم قالن نے نیوز کانفرنس میں کہا، "ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر سکیورٹی سے متعلق ترکی کے خدشات کو، ٹھوس اقدامات کے ساتھ، ایک مخصوص مدت میں پورا نہیں کیا جاتا تو یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔یوکرین کے خلاف موجودہ روسی جارحیت کے سبب ان ممالک کو بھی اپنے دفاع کا خوف لاحق ہے اور اسی وجہ سے دونوں ممالک نے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست دی ہے۔ تاہم ان کی شمولیت سے عشروں سے جاری ان کی عسکری غیرجانبداری کی پالیسی ختم ہو جائے گی۔فن لینڈ  اور روس تقریبا 1,300 کلومیٹر کی طویل سرحد کا اشتراک کرتے ہیں جبکہ اس کا پڑوسی سویڈن یوکرین پر ماسکو کے حملے سے پریشان ہے۔ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں دوسری بڑی فوج کا حامل ملک ہے۔