معدومیت

تحفظ ماحول میں درختوں کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن صرف شجر کاری ہی نہیں بلکہ درختوں کی حفاظت بھی یکساں ضروری ہے‘ کیونکہ کوئی ایک درخت لگانے سے ماحولیاتی عدم توازن درست نہیں ہوتا بلکہ اِس کے لئے برسہا برس کے نگہداشتی عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر درخت جہاں زمین کی مضبوطی کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور اِن کی وجہ سے بارشیں مٹی کے بہاؤ یا تودوں کی شکل میں قدرتی آفت کا باعث نہیں بنتی وہیں درخت فضا سے آلودگی یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ (Co2) جذب کر کے ماحول دوست آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں اور اس طرح گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔ ماحولیاتی تنوع برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ شجرکاری اور جنگلات کی حفاظت کی جائے‘ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ممالک میں شامل ہے اور اِس وجہ سے پاکستان کو مزید شجرکاری کی ضرورت ہے کیونکہ جنگلات کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے ”دس ارب درخت“ لگانے کا اعلان کیا تھا‘ جس کے بعد سے جنگلات کا احاطہ بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے جو اس وقت دنیا میں کم ترین ہے۔ عالمی سطح پر درختوں کا رقبہ کسی ملک کے مجموعی رقبے کے اکتیس فیصد کے مساوی ہونا چاہئے جبکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد حصے پر جنگلات ہیں۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے تحفظ خوراک و زراعت کے مطابق کم سے کم جنگلات کا رقبہ دو اعشاریہ دو فیصد ہونا چاہئے اُور اگر اِس پیمانے سے پاکستان میں جنگلات کے رقبے کو دیکھا جائے تویہ رقبہ جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے کافی ہے۔ جنگلات کے حفاظت میں ’ٹمبرمافیا‘ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو کئی صورتوں میں بے لگام مافیا کے طور پر متحرک ہے اُور اِس بااثر مافیا کی کارستانیوں کی وجہ سے بھی جنگلات کے کچھ حصے کو نذر آتش کر کے زیادہ بڑے حصے کے درخت کاٹ لئے جاتے ہیں۔ بالائی علاقوں میں رہنے والے اِس قسم کے ہتھکنڈوں سے بخوبی آشنا ہیں‘ جن کے لئے ایسے واقعات ایک تواتر سے رونما ہونا معمول کی بات ہے۔ جنگل مخالف قوتوں کے اس گروہ (مافیا) میں تازہ ترین اضافہ ”ٹک ٹاکرز“ ہیں۔ یہ ”ٹک ٹاکرز“ سماجی رابطہ کاری کے وسائل پر مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔

ایک حالیہ بدترین مثال میں انہوں نے درختوں کو مبینہ طور پر آگ لگائی ہے یقینا جنگلات میں لگنے والی آگ آکسیجن کی مقدار کو کم کر دیتی ہے۔ درجہئ حرارت کو بڑھا دیتی ہے۔ نباتات اور حیوانات (جانداروں) کو تباہ کرتی ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لئے کتنی نقصان دہ ہے جن کے لئے جنگلات معیشت و معاشرت کا حصہ ہیں۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں چلغوزے (پائن نٹس) کے درخت حالیہ آتشزدگی سے خاکستر ہوئے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں جنگل کی آگ سے غیرمعمولی طور پر بڑا نقصان ہوا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں سے شروع ہونے والی آگ ہری پور کے جنگلات تک پھیل گئی جبکہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے جنگلات میں لگنے والی آگ دو ہفتوں بعد بھی بجھائی نہیں جا سکی جس کے لئے ایران نے آگ بجھانے والے ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی صورت میں مدد بھی کی ہے۔ ’پائن نٹس (چلغوزے)‘ کے درختوں پر گزربسر کرنے والے ضلع شیرانی کے رہائشیوں کی زندگیاں بُری طرح متاثر ہیں اور اطلاعات کے مطابق اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کی کوشش میں کم سے کم تین افراد اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ جنگلات میں لگنے والی آگ صرف ہاتھ پاؤں مارنے سے سرد نہیں ہوتی اُور نہ ہی ہوگی بلکہ اِس  کے لئے منصوبہ بندی اُور تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے جس کا کمی پوری کرنے کے لئے قومی حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم کے حکم پر جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق صورتحال پر قابو پانے کے لئے کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا اُور متاثرہ ضلع میں ایمرجنسی بھی نافذ کردی گئی ہے جبکہ آگ پر قابو پانے کے لئے پاک فوج اور ایف سی کے ہیلی کاپٹرز کاروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ ایران آگ بجھانے میں مدد کے لئے بہت بڑا ائیر ٹینکر بھی بھیج رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لئے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن یہاں جنگلات کو لاحق خطرات اُور معدومیت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اُور قومی سطح پر آگ بجھانے کی کوئی بھی معیاری حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان کو اس طرح کے واقعات کا مثبت جواب دینے کے لئے بہتر اور فوری طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں حکومت کو چلغوزے کے کاشتکاروں کو پہنچنے والے مالی نقصانات پورا کرنے کے لئے بھی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے پائن کے جنگلات پر انحصار کرنے والوں کی معیشت و معاشرت متاثر ہونے کے ساتھ متاثرہ و دیگر ملحقہ اضلاع میں معاشی اور صنعتی بحران بھی پیدا ہوئے ہیں جو یکساں توجہ کے مستحق ہیں۔ حکومت کو آگ سے بچاؤ کے جدید ترین آلات حاصل کرنے کے لئے بلاتاخیر کاروائی کرنی چاہئے کیونکہ اِس ضرورت کو پورا کرنے میں غفلت کا مظاہرہ اُور بے حسی کی انتہا ہو چکی ہے۔