یہ ایک اچھا قدم ہے۔اس کی وجہ سے امید ہے کہ ہیروئن کا نشہ کرنے والے شاید صحت یاب ہو کر معاشرے کے مفید شہری بن سکیں‘۔یہ ایک نیک کام ہے جس کے لئے بہت پلاننگ کی ضرورت ہے۔خدا کرے سچ ہو جیسا سرکاری لوگوں نے کہا کہ ہم ان کو اصلاح کے مراکز میں داخل کریں گے اور ان پر توجہ دے کر ان کو صحت مند بنا کرنارمل بنائیں گے۔ یہ اقدام معاشرے کو درست کرنے میں بہت بہتر ہوگا۔ موجودہ حکومت کا یہ ایکشن قابلِ تعریف ہے کیونکہ کم از کم تیس سالوں سے تو میں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں۔نشہ کوئی بھی ہو اچھی بات نہیں۔سگریٹ اور چرس تو اب عام سی بات ہو چکی ہے۔نشہ تو نشہ ہے۔مگر ہیروئن کا نشہ او راس قسم کے دیگر نشے انسان کی جان لے لیتے ہیں۔سگریٹ بھی جان لیوا نشہ ہے مگر یہ عام محفلوں میں سرعام کیا جاتاہے۔ وہ لوگ جو نشہ نہیں کرتے اس پر برا نہیں مناتے‘بہت ہوا تو ناک بھوں چڑھا کر سگریٹ پینے والے کو دیکھتے ہیں۔اس پر اگر منہ میں سگریٹ دبائے آدمی کو کچھ خیال آگیا تو آگیا وگرنہ وہ سگریٹ پیتا رہے گا اور سٹائل بناتا رہے گا۔یہاں آئے روز کوئی نہ کوئی کریک ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔مگر اس کا رزلٹ کیا ہوا یہ رپورٹ سامنے نہیں آتی۔ صرف وٹس ایپ گروپ میں اطلاع شیئر ہوتی ہے کہ کل سے کریک ڈاؤن شروع ہو رہا ہے۔مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی توبرآمد ہو۔کیونکہ مؤثر کاروائی کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔کریک ڈاؤن اگر مجرموں کے خلاف ہو تو شاید کامیاب ہو۔یہ کریک ڈاؤن تو ان کے خلاف ہے جن سے پولیس بھی تنگ آ چکی ہے یہ لوگ جو ہیروئن پینے والے ہیں۔ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔تین دہائیوں سے ان کا حل نہیں نکل سکا۔ ان کے لئے ادارے بنائے گئے۔ سنٹر قیام میں آئے۔ مگر یہ ہیں کہ آئے روز شہر کو آلودہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ان کواٹھا کر ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔ یہ ٹھیک ہو کر بھی آ جاتے ہیں۔اور آئندہ کیلئے توبہ بھی کرتے ہیں۔لیکن مہینہ بھر نہیں گزرتا کہ ان میں سے بعض دوبارہ اسی نشہ کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چمکنی کے پاس سے گرین بیلٹ کو لیں جو حیات آباد تک جاتی ہے۔یہ پٹی ان کا مسکن ہے۔جہا ں یہ کھلے عام ہیروئن پیتے ہیں۔ان کو وہا ں سے اٹھاتو دیا جاتا ہے۔مگر ان کو حوالات اور جیل میں بند نہیں کر سکتے۔ یہ سرسری سا قصہ نہیں بہت باتیں ہیں۔
پھر شہر سے صدر جانے والی پٹری کو لیں۔اس کے دو اطراف بھی یہی لوگ ٹولیوں میں بٹ کر سروں پر چادریں تان کر منہ چھپا کر یہ جان لیوا نشہ کر رہے ہوتے ہیں اس نشے میں پڑھے لکھے لوگ اور پینٹ شرٹ پہنے لوگ بھی گرفتارہیں۔ گرین بیلٹ کی پٹی پر سینکڑوں کی تعداد میں یہی لوگ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ پلوں کے نیچے اور ریل کے پھاٹک کے ساتھ سبزہ زار میں جھاڑیوں کے پسِ پردہ نشہ کرنے میں مصرو ف ہوتے ہیں۔یوں دکھائی دیتا ہے جیسے پورا نہیں تو ایک حصہ شہر کے لوگ اسی لت میں مبتلا ہوئے ہوں۔ان کے لئے جوری ہیب سنٹر قائم کئے گئے ہیں ان کے عملے کو بھی ان کے ساتھ دلچسپی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو صحت مند ہونا چاہتا ہو اور اس نشے سے نجات حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔جب تک کہ خود ان میں اس نشے کو چھوڑدینے کا جذبہ پیدا نہ ہو۔ ضرورت ہے کہ یہ کریک ڈاؤن صرف نام کے لئے کریک ڈاؤن نہ ہو بلکہ اس پر صحیح طریقے سے عمل درآمد ہو۔ان کو عرصہ دراز کے لئے نظر میں رکھنا چاہئے۔کہتے ہیں کہ ہم شہر کو اس قسم کے نشہ کرنے والوں سے بالکل پاک کردیں گے۔شہرکے کھلے اور بند مقامات پر ان کے ٹھکانے ہیں۔اوپر سے شہر بالکل صاف بھی نظر آئے۔پھر یہ نشہ تو چھپ چھپا کر کرتے بھی نہیں‘ کھلم کھلا نشہ کرتے ہیں۔گویا ہمیں روک سکتے ہوتو روک کر دکھا دو۔ان کو پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے‘ پولیس والے خود بھی ان سے بیزار ہیں۔ایک تھانے والے پکڑ کر لے جاتے ہیں تو دوسرے تھانے کے حوالے کرتے ہیں۔ وہاں ان کو نہیں رکھتے اور اٹھا کر اگلے تھانے کے حوالے کرتے ہیں مگر ہر تھانے والے ا ن سے الرجک ہیں۔ان سے ہر کوئی پیچھا چھڑا نا چاہتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ واحد طبقہ ہے جو کبھی درست نہیں ہونا چاہتا۔اس جان لیوا نشہ میں برباد ہو کر کئی شہری جان سے بھی گئے۔اس نامراد نشہ کیلئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ایک پڑیا کیلئے ہر چیز فروخت کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔