امریکہ کا دوغلہ پن

 ہمیں اگلے روز امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان پڑھ کر حیرت ہوئی کہ امریکہ ون چائنا one China  کو مانتا ہے۔ اس سے بڑا سفید جھوٹ  بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟ امریکہ  1949 سے لے کر آ ج تک تائیوان کو ہلہ شیری کر کے چین کی حکومت کے خلاف سپورٹ کر رہا ہے اور اس نے کئی کئی مرتبہ  چین کو دھمکی بھی دی ہے کہ اگر اس نے تائیوان کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو وہ تائیوان کی حمایت میں کھڑا ہوگا قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جب 1949 میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے  جنرل کائی شیک کی افواج کو شکست دے کر چین کو اس کے تسلط سے آ زاد کروایا تو اسی وقت سے امریکہ نے چین کے مقابلے میں تائیوان کی حمایت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو آ ج بھی جاری و ساری ہے۔ امریکہ کی عالمی سطح پر ڈپلومیسی ہمیشہ سفید جھوٹ پر مبنی رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال امریکی وزیر خارجہ کا مندرجہ بالا تازہ ترین بیان ہے۔دوسری طرف  چین نے امریکہ پر غلط اور جھوٹی معلومات پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے واشنگٹن پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے خبردار کیا تھا کہ چین بین الاقوامی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔چین نے  امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی تازہ ترین تقریر پر شدید نکتہ چینی کی ہے، جس میں انہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان طاقت کے توازن پر توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی تھی اور چین کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔بلنکن نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب کے مطابق امریکہ کے خیال میں چین، بین الاقوامی نظام کیلئے سب سے سنگین اور ایک طویل مدتی چیلنج ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس خطاب کو امریکہ کی طرف سے غلط معلومات پھیلانے اور چین کی داخلی و خارجہ پالیسی کو بدنام کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔وانگ نے امریکی وزیر خارجہ پر منافقت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیانات بنیادی طور پر غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے اس خیال کی جانب خاص طور پر توجہ مبذول کرائی کہ امریکہ دوسرے ممالک کو چین کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بین الاقوامی قوانین میں سے بیشتر امریکی یا پھر چند دوسرے ممالک کی اختراعات ہیں۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، امریکہ ہمیشہ اپنے ملکی قوانین کو بین الاقوامی قانون سے بالاتر رکھتا ہے اور جو بین الاقوامی قوانین اس کے حق میں ہوں، صرف انہیں پر عمل کرتا ہے ورنہ مسترد کر دیتا ہے۔واضح رہے کہ جمعرات کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا، ''چین ایک ایسا ملک ہے، جو بین الاقوامی نظام کو اپنے نظریات کے مطابق آگے لے جانے کے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اقتصادی، تکنیکی، فوجی اور سفارتی ذرائع کو اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اقتصادی مسابقت اور فوجی مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے چین کے متعلق امریکی حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کیا۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس تو عالمی نظام کیلئے موجود ہ اور فوری خطرہ ہے لیکن طویل مدت کے لحاظ سے چین بین الاقوامی سکیورٹی کو تباہ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔اس وقت بین الاقوامی نظام کی بنیادوں کو سنگین اور مسلسل خطرات لاحق ہیں۔اور اب آ تے ہیں وطن عزیز کے تازہ ترین سیاسی حالات کی جانب‘ بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ میدان سیاست میں سیاسی پارٹیوں کو کبھی بھی انتہا پسندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اورہمیشہ کسی بھی معاملے میں اتنا سخت موقف نہیں اپنانا چاہئے کہ کل کلاں ان کو اپنے سابقہ موقف سے ہٹنے کی صورت میں کسی  سبکی کا احساس ہونے لگے۔سیاست نام ہی ہے مذاکرات کا ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کیلئے آج اس کے ذمہ دار فریقین کو  میانہ روی اور اعتدال کا رستہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔