موٹاپا

روزنامہ آج کے ایک قاری نے توجہ دلائی ہے کہ صحت کے موضوعات کو ادارتی صفحے کا مستقل حصہ بنایا جائے اور صحت عامہ کے تحفظ میں ذرائع ابلاغ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک مختلف نوعیت کا خطرہ ہے اور اگر صحت عامہ سے متعلق عوامی شعور کی سطح بلند نہیں کی جائے گی تو اِس سے نہ صرف علاج معالجے کے نظام پر دباؤ برقرار رہے گا بلکہ معاشی و خاندانی نظام بھی متاثر ہوگا۔ صحت مند زندگی سے زیادہ موزوں (بہتر) انتخاب کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ گردوپیش میں نگاہ کیجئے کہ کس طرح ”موٹاپا“ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر دوسرا شخص اِس میں مبتلا دکھائی دے رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ”بسیار خوری (زیادہ کھانا پینا)“ نہیں بلکہ اشیائے خوردنوش کا غلط انتخاب ہے اور سستی اور کاہلی پر مبنی طرز زندگی ہے جس میں ٹیلی ویژن‘ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پہلے ہی خرابی کا مؤجب تھے جبکہ موبائل فونز نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور اب موبائل فون صارفین گھنٹوں بنا جسمانی حرکت ایک ہی مقام پر بیٹھے یا لیٹے رہتے ہیں جبکہ اِس دوران بھوک لگنے کی صورت میں ایسی خوردنی اشیا کا استعمال کرتے ہیں جو تیار (پکی پکائی) ملتی ہیں اور جن میں چکنائی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا وزن بڑھ رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ انسانی جسم کا معمول کے مطابق (نارمل) یا اِس سے زیادہ وزن موٹاپے کی نشاندہی ہوتی ہے جو درجہ بندی کے لحاظ سے زیادہ موٹے افراد تک کی درجہ بندی ہے جسے طبی اصطلاح میں ”بی ایم آئی (BMI)“ کہا جاتا ہے اور یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ مقبول اور قابل بھروسہ معیار ہے۔ موٹاپے کو ناپنے کے اِس پیمانے میں کسی شخص کے قد اور اُس کے وزن کو مدنظر رکھ کر حساب کتاب کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پچیس یا اس سے زیادہ بی ایم آئی کے حامل فرد کا وزن زیادہ سمجھا جاتا ہے

لیکن طبی ماہرین جنوبی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان کیلئے موٹاپے کے دو پوائنٹس مزید کم کرنے کو درست قرار دیتے ہیں کیونکہ پاکستان میں ’موٹاپا‘ عام ہے اور معمول کے موٹاپے سے ابتدائی موٹاپے میں سفر کرتے ہوئے بہت کم وقت لگتا ہے یعنی پیٹ پر چربی کہ تہہ بڑھنے لگتی ہے۔ طبی ماہرین پیٹ پر چربی کے بڑھنے کو جسم کے کسی بھی دوسرے حصے میں چربی بڑھنے سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں جو وزن بڑھنے کی بھی بنیادی وجہ (محرک) ہے۔ طبی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر موٹاپے کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو قومی سطح پر ہنگامی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ امر اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ پاکستان میں موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں غذائیت کی کمی اور کم وزن والے لوگوں کا شمار ملک کی نصف آبادی سے زیادہ ہے! تاہم ملک کی 14فیصد آبادی زیادہ وزن اور موٹاپے جیسے مسئلے سے دوچار تھے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق بہت زیادہ جسم کی چربی غیر متعدی بیماریوں کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ موٹاپے کی وجہ سے تیرہ قسم کے سرطان (کینسر)‘ ٹائپ ٹو ذیابیطس (شوگر)‘ دل کے مسائل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں اور اندازہ ہے کہ ہر سال ہونے والی لاکھوں اموات کی بنیادی وجہ موٹاپا ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کسی انسان کے قد اُور اُس کی عمر کے حساب سے ہر 10 کلو اضافی وزن اُس کی زندگی کے 3 سال کم کر دیتا ہے یعنی اگر کسی شخص کا وزن بیس سے پچیس کلو زیادہ ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ اُس کی متوقع عمر پانچ سے آٹھ سال کم ہو گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کے دوران زیادہ وزن رکھنے والے کورونا مریضوں میں شرح اموات ”تین گنا“ زیادہ تھی جبکہ موٹاپے کے نفسیاتی اور سماجی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں‘ جن کے بارے میں بہت کم غور کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ میں ایسی مصنوعات کی تشہیری مہمات پر پابندی عائد کرے جو موٹاپے کا باعث بن رہے ہیں۔ طبی ماہرین متوجہ کر رہے ہیں کہ موٹاپے اور اِس کی وجہ سے بیماریوں کے سلسلے میں بیداری پیدا کی جائے۔ موٹاپا درحقیقت ”خود غرضی“ ہے کہ کوئی شخص اپنے صحت اور اہل و عیال کی بہبود کے بارے میں فکر کرنا چھوڑتے ہوئے صحت مند رہنے کیلئے کوشش نہ کرے۔ موٹاپے کو بیماری اور بیماریوں کا محرک سمجھتے ہوئے اِس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش و محنت کرنے ہی میں عقلمندی (دانشمندی) ہے۔