کسی بھی حکومت کی خواہش نہیں ہوتی کہ وہ عوام پر بوجھ ڈالے تاہم بعض اوقات معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مجبوراً ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جن کا مقصد مشکل حالات سے نکلنے کے لئے راستہ بنانا ہوتا ہے۔حکومت پاکستان نے تیل مصنوعات کی قیمت 30 روپے فی لیٹر بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب موجودہ حکومت، جو اب تک عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کا عزم کیے ہوئے تھی اور اب مجبورا ًایسا کرنے جا رہی ہے، کے پاس کون سے راستے کھلے ہیں اور اسے کون سے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔وفاقی وزیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا سیاسی نقصان تو ہو سکتا ہے مگر یہ کرنا ملک کیلئے ضروری تھا۔یہ اضافہ اب تک کا سب سے بڑا یکمشت اضافہ ہے اور یہ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر سپورٹ پروگرام کا تقاضا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق جب تک پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائیں گے آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا۔ ان کے بقول تیل مصنوعات پر سبسڈی کی وجہ سے خزانے پر ایک سو دس ارب ماہانہ بوجھ پڑ رہا تھا۔ اس اضافے سے مہنگائی میں اضافہ یقینی ہے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔اس اضافے پر سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے تنقید کی ہے کہ حکومت روس سے 30 فیصد کم قیمت پر تیل لینے کی ڈیل پر کام نہیں کر سکی۔موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر سپورٹ پروگرام کا معاہدہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا جس کے تحت تیل مصنوعات پر سبسڈی اور ٹیکس رعایتیں ختم کرنی تھیں۔ موجودہ حکومت کاکہنا ہے کہ سابق حکومت فروری تک پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کرتی رہی مگر اپنے آخری دنوں میں اس نے تیل مصنوعات کی قیمت کم کرکے اور پھر عالمی منڈی کے برعکس قیمت برقرار رکھ کر خزانے پر بوجھ بڑھا دیا جسے موجودہ حکومت نے بارودی سرنگ قرار دیا ہے۔تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے کے بعد آئی ایم ایف سے دوبارہ معاہدہ بحال ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے اور اس کے بعد امید ہے کہ عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پروگرام بھی بحال ہوجائیں گے اور سعودی عرب اور چین سے بھی مالی تعاون کاامکان ہے۔سوال یہ ہے کہ اب موجودہ حکومت کے پاس کون سے راستے بچے ہیں۔ حکومت کے پاس ایک راستہ یہ ہے
کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کرکے اسے آمادہ کرلے کہ کیا گیا معاہدہ زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ یہ معاہدہ کورونا وبا، افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، یوکرین بحران اور اس کے نتیجے میں آنے والی عالمی مہنگائی لہر سے پہلے ہوا تھا اس لیے اس میں تبدیلیاں کی جائیں اور شرائط نرم کی جائیں۔لیکن وفاقی حکومت کو بڑے تجارتی اور بجٹ خسارے کا سامنا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر صرف دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں بظاہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس بیل آوٹ پیکج کیلئے جانا ہوگا، تکلیف دہ اقتصادی فیصلے کرنے ہوں گے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی اور محصولات بڑھانے کیلئے نئے ٹیکس لگانے اور موجودہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانا ہوگی۔ مگر ان اصلاحات کے بعد مہنگائی میں اضافہ یقینی ہے اور حکومت کی خواہش ہوگی کہ وہ اس کے اثرات سے غریب اکثریت کو بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ اس مقصد کیلئے اسے مختلف اشیا ئے ضرورت پر ٹارگٹڈ رعایتیں اور ہر خاندان کیلئے ماہانہ کم سے کم پانچ ہزار روپے امداد پیکج کا اعلان کرنا ہوگا۔اگر چہ وزیر اعظم نے ماہانہ دو ہزار ریلیف کا اعلان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مدد حاصل کرنے والے خاندانوں کیلئے کیا ہے تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں اضافے کی گنجائش ہے۔ایک تیسرا راستہ یہ ہے کہ پاکستان روس سے رعایتی قیمت پر تیل حاصل کرنے کی کوشش کرلے جس طرح بھارت کے علاوہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا روس سے سستا تیل حاصل کررہے ہیں۔
یاد رہے پاکستان اپنی ضرورت کا 80 فیصد تیل سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت اور سنگاپور وغیرہ سے درآمد کرتا ہے۔ رعایتی قیمت پر روسی تیل حاصل کرکے پاکستان درآمدی اخراجات کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے قابل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستانی معیشت کا دارومدار بڑی حد تک مغربی ممالک کے ساتھ تجارت پر ہے مگر نہ بھولیں کہ بھارت کی تیل درآمدات بھی تقریبا بیس فیصد امریکہ سے آتی ہیں۔ پاکستان یوکرین سے بھی تجارت بڑھاسکتا ہے بھارت نے امریکی خوشنودی کیلئے روسی حملے کے بعد یوکرین سے تیل و گیس کی درآمدات گیارہ فی صد بڑھا دی ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی کسی ایک پارٹی کے بس کا کام نہیں ہے۔ چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں کو معیشت کی بہتری کیلئے درکار اصلاحات، مالیاتی خسارہ کم کرنے، توازن تجارت میں بہتری، ملکی و بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے، ملک میں امن اور سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنے، غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی، سرمایہ کاری کو آسان بنانے کیلئے سرخ فیتہ اور بدعنوانی میں کمی کرنے، معیشت کی شرح نمو اور ٹیکس آمدنی بڑھانے، غریب اکثریت کو مہنگائی سے بچانے اور سیاسی استحکام لانے کے لائحہ عمل پر فوراً سے پیشتر ایک باہمی معاہدہ کرلینا چاہئے۔اور یہ وقت کا تقاضا ہے کیونکہ اس وقت جو صورتحال درپیش ہے اس کا مقابلہ کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔باوجود اسکے کہ عالمی سطح پر معاشی بحران ہے اور صرف پاکستان نہیں دیگر کئی ممالک بھی اقتصادی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں معاشی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے۔