پرچے اور پرچیاں 

ان دنوں پرچیوں کی بہار ہے۔دوپہر جب سکولوں سے چھٹی کا وقت ہوتا ہے تو جہاں نچلی کلاسوں کے بچے گھروں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ وہا ں نویں اور دسویں جماعت کے بچے بھی ان جتھوں میں شامل ہو تے ہیں۔وہ جو آج کل ہونے والے میٹرک میں کے امتحان ہال میں سے پیپر دے کر نکلتے ہیں۔سڑکوں پر پاؤں تلے آنے والی پرچیاں ان پرچوں کا پتا دیتی ہیں جو ان پرزوں کی مدد سے حل کئے گئے ہیں۔یہ بڑے پرچہ جات نہیں ہوتے بلکہ پاکٹ گائیڈ چھاپنے والوں کے وہ نوٹس ہوتے ہیں جوانھوں نے شائع کر رکھے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب نقل کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔نقل کے بغیر  چند بعض اداروں میں پڑھائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم تو دد نمبر کاموں میں اوّل نمبر پر ہیں۔یہ باہر ملکوں کے تعلیمی ادارے ہیں جہاں یہ خیال ہی میں نہیں آتا کہ نقل بھی آخر کسی چیز کانام ہے۔ہمارے ہاں کس کس طریقے سے نقل کی جاتی ہے اس کی تفصیل تو چھوڑیں۔یہ ایک مستقل موضوع ہے جو دہائیوں سے ہمارے ہاں زیرِ بحث ہے۔ پھر اس پر عمل درآمد بھی تو اپنی پوری رعنائی سے ہورہا ہے۔ترقی کرنے والی قوموں کے طریقے او رہوتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں۔ہم اپنا کام نکلوانا چاہتے ہیں اور کام نکلوانا جانتے ہیں۔اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مگر عام طور سے ایسا ہی ہے کہ اس بیماری سے ہم پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔اس کا ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے۔پھر جب یہ لوگ عملی زندگی میں آگے جاتے ہیں تو کسی بھی ادارے میں وہاں کے فعال رکن نہیں بن سکتے۔کیونکہ ان کی بنیاد میں نقل کرنے کا رجحان اپنی جگہ پکڑ چکا ہوتا ہے۔سڑک پر جاتی ہوئی گاڑیوں میں سے ہاتھ نکال کر طالب علم حضرات وہ پرچیاں جن سے ہال کے اندر کام لیا ہوتا ہے

ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔جن پر ان کے نصاب کی وہ باتیں لکھی ہوتی ہیں جن کو زمین پر گرانا درست نہیں۔ اگر ان کے پاس سے پرچیاں نکل آتی ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ان کو نہ اندر او رنہ ہی باہر کوئی روکنے ٹوکنے والا تھا۔انھو ں نے جس طرح بھی چاہا اپنا کام نکلوایا اور اپنا الو سیدھا کیا۔سو جب یہ حالت ہو تو انجامِ گلستاں سب کو معلوم ہے۔کسی کلاس کا امتحان ہو اس بیماری سے بچ کر چلنا بہت مشکل ہے۔کیونکہ ہماری تربیت ہی اس طرح ہوئی ہے کہ ہمیں اس نقل کا کا م کرنے پر نہ کوئی لاج آتی ہے اور نہ ہمیں دل ہی میں سہی ندامت محسوس ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اسی لئے تو ڈگریوں او رسرٹیفیکیٹس کی قدر و قیمت نہیں۔ڈگریاں تو ہم سے ہر ایک کے پاس ایک چھوڑ چار چار ہیں مگر ان کے حاصل کردہ نمبروں کے مطابق ہم میں اس طرح کی عقل بھی ہونی چاہئے۔کیونکہ نقل بھی تو عقل سے ہوتی ہے۔اگر عقل ہو تو پھرکس بات کا رونا ہے۔ہم عقل حاصل کرنے کے لئے ہی تو تعلیم کے میدان میں سامنے آتے ہیں۔مگر ہم کچھ سیکھ نہ پائے تو کیا۔ یہ تعلیم حاصل کرنے کی سعی ایک ادھوری کوشش ہوگی۔ہمارے ہر کام میں اسی لئے تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔کیونکہ ہم نے اس ادھورے نظام میں کوئی عمل بھی پورے طور پر سرانجام نہیں دیا ہوتا۔اس تحریر کے حوالے سے اور تفصیلات بھی ہیں جن کواگر ضبط کر لوں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔بندہ اگر تعلیم حاصل کرے اور اس کے مقاصد حاصل نہ کر سکے تو اس کا کسی طور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا۔بچو ں کو جتنا ممکن ہو اس کارِ ندامت سے دور رکھا جائے۔ مانا کہ نقل کی کوشش تو بچوں کا ازخودکیا گیا عمل ہوتا ہے۔جس سے نہ صرف ان کو پرہیز کرنا ہے بلکہ دوسرے بچوں کو بھی اس طرف آنے سے منع کرنا ہے۔کیونکہ یہ تو آسان راستہ ہے مگر مستقبل میں جاکر اس سے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔کسی بھی کلاس میں پڑھائی شروع ہوتے وقت بچے کو بھرپور طریقے سے اپنی پڑھائی پر توجہ دینا ہے۔تاکہ جب سال کے بعد امتحان کا دن آئے تو اس کو کسی نقل کی ضرورت پیش نہ آئے۔اس کیلئے ہم سب نے محنت کرنا ہے بچوں نے اور ان کے والدین نے بھی والدین نے ان کے اخلاق پر توجہ دینا ہے۔تاکہ وہ اس بیماری سے دور رہ سکیں۔اگر والدین بچوں کو نمبروں کی دوڑسے باہر رکھے اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ تعلیم حاصل کرنا اور اس کے مقصد کو پانا ہی اصل کامیابی ہے اور نقل کر کے وہ شارٹ کٹ اختیار کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ جو کتابوں میں ہے ان کو سوچ سمجھ کر پڑھیں اور امتحان میں پاس ہونے کے ساتھ ساتھ علم کی روشنی سے بھی منور ہوں۔