پہلی جنگ عظیم میں وسیع پیمانے پر تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد لیگ آ ف نیشنز کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس کے پیچھے جو جذبہ کارفرما تھا وہ یہ تھا کہ دنیا کو مستقبل میں پہلی جنگ عظیم کی طرح کسی اور جنگ عظیم کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ افسوس کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور لیگ آف نیشنز کے قیام کے تقریباً بیس سال بعد ہی دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہو گئی لیگ آ ف نیشنز پر یہ الزام تھا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کے زیر اثر تھی بالکل اسی طرح کہ جس طرح اقوام متحدہ کے بارے میں اس کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ اپنے قیام کے فورا ً بعد سے ہی کئی اہم نوعیت کے بین لاقوامی ایشوز میں سپر پاورز کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکتی آئی ہے ان ناقدین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کا بھی کہیں لیگ آ ف نیشنز جیسا انجام نہ ہو مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر بھارتی فوج کی بربریت اور فلسطینیوں کی آزادی کی جنگ کو کچلنے کیلئے اسرائیل کے مظالم پر اقوام متحدہ کی سردمہری اس ادارے کے چہرے پر سیاہ داغ ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق لیگ آف نیشنز کے ٹوٹنے کے اور بھی کئی اسباب ہوں گے پر اس کی ایک بڑی وجہ فرانس اور برطانیہ کے درمیان اتحاد کا فقدان تھا بالکل اسی طرح کہ جس طرح اقوام متحدہ میں امریکہ اور روس اور چین کے درمیان پایا گیا ہے۔ لیگ آ ف نیشنز اگر کامیاب ہو جاتی تو دوسری جنگ عظیم نہ ہوتی آج اگر خدانخواستہ اقوام متحدہ ناکام ہوتی ہے اور تیسری جنگ عظیم چھڑتی ہے تو وہ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے مقابلے میں مہلک اس لئے ہو گی کہ آج سپر پاورز کے علاوہ کئی اور ممالک کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ موجود ہے جو کرہ ارض کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق بالکل کچھ نہ ہونے سے اقوام متحدہ کا وجود بہتر ہے اس ادارے نے کئی اور شعبہ ہائے زندگی میں بعض اچھے کام بھی کئے ہیں جیسا کہ دنیا میں جنگ زدہ علاقوں میں اقوامِ متحدہ کی امن فوج بھجوانا‘قحط زدہ ممالک میں انسانی جانیں بچانے کیلئے خوراک کی ترسیل وغیرہ‘ نقل مکانی کے شکار لوگوں کی آ بادی اور بہبود کے منصوبوں پر کام‘ انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وسیع فنڈز درکار ہوتے ہیں اور قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ امریکہ جیسے مالدار ملک جو اس مد میں کبھی کھل کر اقوام متحدہ کو مالی طور پر سپورٹ کرتے تھے اب ذرا اس معاملے میں ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔
مختصر یہ کہ مندرجہ بالا خامیوں کے باوجود اقوام متحدہ وقت کی ضرورت ہے اور سپر پاورز کو اس کی مالی امداد میں کنجوسی نہیں کرنی چاہئے جہاں جہاں کمیاں ہیں ان کو رفع کیا جائے تاکہ اس ادارے کا لیگ آف نیشنز جیسا انجام نہ ہو۔اب ایک اور اہم معاملے کی طرف آتے ہیں جہاں چین کے وزیر خارجہ ان دنوں بحر الکاہل کے جنوب میں واقع ممالک کے دورے پر ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس دورے کا مقصد چین کی بڑھتی فوجی قوت کے تناظر میں سفارتی رابطہ کاری کا اظہار ہے۔چینی وزیر خارجہ وانگ ژی ایک 20 رکنی وفد کے ساتھ جنوبی بحر الکاہل میں واقع مختلف چھوٹی ریاستوں کے دورے پر ہیں۔ اعلی ترین چینی سفارت کار کے اس دورے کو بین الاقوامی مبصرین بہت اہمیت اس تناظر میں دے رہے ہیں کہ اس خطے میں امریکہ ہمیشہ ایک بڑی قوت کے طور پر موجود رہا ہے۔
اب چین اس خطے میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔ اس مناسبت سے جزائر سولومن میں چینی موجودگی سے اب انکار ممکن نہیں رہا۔سولومن جزائر میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا اثر آسٹریلیا میں بھی محسوس کیا گیا جو قریب دو ہزار کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورے کے جواب میں آسٹریلیا کی نئی وزیر خارجہ پینی وونگ فجی کے دورہ کرنے والی ہیں۔ پینی وونگ کی لیبر پارٹی نے ابھی ایک ہفتہ قبل قومی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔بیجنگ حکومت کے وزیر خارجہ وانگ ژی جنوبی بحر الکاہل کے جن ممالک کا دورہ کر رہے ہیں، ان میں جزائر سولومن کے علاوہ کیریباتی، ساموآ، فیجی، ٹونگا، وانواتو، پاپوا نیو گنی اور مشرقی تیمور شامل ہیں۔ وانگ ژی کا یہ دورہ دس روزہ ہے۔
ان کا یہ دورہ ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے سے متعلق ہے، جو پہلے سے بیجنگ کے مرکزی حریف امریکہ کے قریب ہیں۔ ان ممالک کے آسٹریلیا کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں اور یہ ملک بھی چین کے ساتھ مسابقت رکھتا ہے۔مبصرین کے مطابق جنوبی بحرالکاہل کی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے ساتھ چین کے تعلقات میں مضبوطی کی صورت میں وہ وہاں بندرگاہوں کی مانگ کر کے اپنی بحری قوت کو بڑھا سکے گا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے عسکری آلات بھی منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کو سوچے گا۔ اگر مستقبل میں ایسا ہو جاتا ہے تو یہ امریکہ کی دفاعی حکمتِ عملی کیلئے پیچیدگیوں کا باعث ہو گا۔چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ کے دور میں بیجنگ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو پروگرام کے تحت اپنا اثر و رسوخ مشرقی ایشیا سے یورپ تک پھیلانا چاہتا ہے۔
دوسری جانب شی کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی تیسری مدت کیلئے بھی حاصل کرنے والے ہیں اور جنوبی بحر الکاہل میں سفارتی کامیابی ان کی اتھارٹی کو مزید استحکام دے گی۔چین اور جزائر سولومن کے درمیان ایک معاہدہ بھی موجود ہے اور اس کے تحت بیجنگ اس جزیرہ ریاست کو فوجی امداد فراہم کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کے حوالے سے امریکا کہہ چکا ہے کہ اگر اس ایگریمنٹ سے اس کے مفاد کو نقصان پہنچا تو وہ جوابی اقدام کر سکتا ہے۔