روس یوکرین جنگ (تنازعے) کو تین ماہ کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے اور اگرچہ بظاہر یہ جنگ دو ممالک کے درمیان براہ راست ہو رہی ہے لیکن اِس کے اثرات مہنگائی و معاشی مشکلات کی صورت دیگر ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے عالمی سطح پر روس یوکرین جنگ بندی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور اب تو عالمی رہنماؤں اور عالمی تنظیموں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ روس و یوکرین سمیت دنیا کے دیگر حصوں میں جاری تنازعات اگر ختم نہ کئے گئے تو اِس سے عالمی سطح پر بھوک و افلاس کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اور دنیا ایسی مشکلات میں پھنس جائے گی جس کا اِس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ زرعی تحفظ‘ غذائی تحفظ‘ ایندھن کی ضروریات اور عالمی سطح پر غذا کی فراہمی سے متعلق معاملات جنگ و دیگر تنازعات کی وجہ سے متاثر ہیں اور اِن کے نتیجے میں دنیا میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ جس کا ممکنہ حل کی تلاش میں عالمی اور علاقائی سطح پر غوروخوض جاری ہے۔
زرعی تحفظ دنیا کی پہلی ضرورت ہے جبکہ ماحولیاتی طور پر مضبوط ترقی اور بہتر غذائیت یقینی بنانے کی جاری کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ جنگوں اور تنازعات نے 24 ممالک میں 13کروڑ 90 لاکھ (139 ملین) سے زائد افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ سے دوچار کر رکھا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 8 ممالک متاثر ہیں جن کے ہاں 2 کروڑ 30 لاکھ (23ملین) سے زائد افراد شدید بھوک برداشت کر رہے ہیں جبکہ اعدادوشمار کے مطابق اقتصادی مشکلات نے 21 ممالک میں 3 کروڑ (30ملین) افراد کو متاثر کر رکھا ہے۔ یہ اعدادوشمار اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’عالمی ادارہئ خوراک (FAO)‘ نے جاری کئے ہیں اور دنیا کی توجہ اِس نازک صورتحال کی جانب مبذول کروائی ہے کہ جنگ و تناعات کی وجہ سے بھوک و افلاس بڑھ رہی ہے‘ جسے بچانے کے لئے ”قیام ِامن“ ضروری ہے۔
ظاہر ہے کہ اِن اعدادوشمار کا مرکز و محور ’یوکرین‘ کی صورتحال ہے جہاں انسانی مصائب اور خوراک کی عدم دستیابی کے علاوہ خوردنی اجناس کی ترسیل متاثر ہے تاہم روس یوکرین جنگ کے اثرات کم آمدنی والے اور خوراک درآمد کرنے والے ایشیائی و افریقی ممالک بھی محسوس کر رہے ہیں جو خوراک‘ اناج‘ ایندھن اور کھاد کی فراہمی کیلئے روس و یوکرین پر انحصار رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ”فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن“ کے اعداد و شمار میں مزید کہا گیا ہے کہ مارچ دوہزاربائیس کے آخر تک‘ جنگ کے آغاز (روس یوکرین جنگ کے پہلے مہینے) غذائی مصنوعات کی قیمتوں میں بارہ اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا جو اُنیس سو نوے کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ ’ایف اے او‘ کے علاؤہ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور دیگر اداروں کے حالیہ مطالعے کے مطابق 53ممالک میں کم و بیش 19 کروڑ 30لاکھ (193ملین) افراد پہلے ہی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے اور دوہزاراکیس میں اِن کے لئے فوری عالمی امداد کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم سال دوہزاربیس میں شدید غذائی عدم تحفظ سے دوچار افراد کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے!
اگر جنگیں اور تنازعات جاری رہتے ہیں تو عالمی اداروں کے مطابق غربت و مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اِس عالمی صورتحال کے تناظر میں اہل پاکستان کو افغانستان کی موجودہ صورتحال پر نظر کرنی چاہئے جہاں قریب دو کروڑ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور یہ تعداد افریقی ممالک صومالیہ‘ جنوبی سوڈان اور یمن سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ روس یوکرین جنگ سے قبل کورونا وبا نے عالمی معاشی مندی میں اضافہ کیا۔ کورونا وبا سے دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا کی 7 ارب آبادی میں سے 3 ارب سے زائد افراد کو کسی نہ کسی معاشی مشکلات کا سامنا رہا۔ لب لباب یہ ہے کہ جنگ و تنازعات (سیاسی و غیرسیاسی عدم استحکام) ختم کئے بغیر کسی بھی ملک میں مہنگائی و غربت کی شرح کم نہیں کی جا سکتی۔