اس سے پہلے کہ موبائل میں رکھا الارم بجتا۔ وہاں صبح صبح ہی میری آنکھ کھل گئی۔جہاں میں بحیثیت مہمان موجود تھا۔ گلی میں سے کشاکش اور دیگر آوازیں آ رہی تھیں۔میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔اتنا معلوم ہونے لگا تھا کہ صبح تڑکے ہی صفائی کے عملے والا سرکاری اہل کار گلی کی بڑی نالی بیلچے نما اوزار کے ساتھ صاف کر رہاتھا۔لیکن یہ خیال اس لئے قوت نہ پا سکا کہ یہ علاقہ میونسپل کارپوریش کا علاقہ نہ تھا۔ یہ شہر کے قرب و جوار کا ایک گاؤں تھا۔ یہاں تو صفائی کا عملہ سرکاری طور پر نہیں آتا۔کیونکہ شہر تو رنگ روڈ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔پھر بلدیہ کا اس رنگ روڈ کے اندر کام ہے۔باہر کے علاقے اس کی پہنچ میں نہیں آتے۔ناشتے کے وقت میں نے اپنے مہاندار سے پوچھا آپ کا علاقہ تو کمیٹی کی حدود میں نہیں ہے۔مگر صبح کے وقت صفائی کا عملہ کہاں سے آ گیا تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ارے یہاں صفائی کے عملے کا کیاکام۔میں او ربھی حیران ہوا او رپوچھاتو پھریہ کون ہے۔
یہ حاجی صاحب ہیں۔جو گلی کی صفائی میں مصروف تھے۔اس نے مزید کہا۔ ہماری اس گلی میں ضروری صفائی ستھرائی کا کام یہی سرانجام دیتے ہیں۔اس بڑی نالی میں پانی کھڑا ہو جائے۔ پھر معلوم ہو کہ نالی بند ہے۔تب یہ صاحب گھر سے بیلچے نکال لاتا ہے۔تنِ تنہا صبح سویرے لگا رہتا ہے۔نالی کی صفائی کرتا ہے او رہاتھ میں جھاڑو لئے گلی کے فرش کی صفائی بھی کر رہا ہوتا ہے۔حالانکہ اگر یہ صفائی نہ کرے تو اس پر کسی کا کوئی حق نہیں بنتا۔جیسے گلی کے اور گھر ہیں۔جہاں اندر نفری زیادہ ہے۔ ہر گھر سے ایک نوجوان بھی نکل آئے تو پوری گلی کو منٹوں میں صاف کر سکتے ہیں۔مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ حاجی صاحب کو ایک جنون سوار ہے۔
وہ اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔ایک اکیلے اور کسی صلے سے بے نیاز۔پھرتعریف کی پروا بھی نہیں۔ اگر وہ اپنا نام کرنا چاہتے تو اس وقت یہ صفائیاں کرتے جب یہاں کے سارے مکیں نیند سے بیدار ہو جائیں۔ ا ن کو گلی کا ہر باشندہ دیکھے۔ا سی موقع پر دکھاوے کی خدمت کرنے والوں کے من کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔میں نے جی میں سوچا کمال کا انسان ہے۔پھر میں بعد میں رخصت ہونے کو جب گلی میں سہہ پہر کے وقت نکلا تو ساتھی نے مجھے چپکے سے کہا وہ حاجی صاحب۔میں نے دیکھا تو خوشی ہوئی۔حالی کا شعر یاد آیا”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔یہ گذری ہوئی عمر کی شخصیت چہرے پر ہلکی سی سفید داڑھی۔گھٹا ہوااو رگول بدن قد درمیانہ سا۔
میں نے سوچا کہ ان سے انٹرویو سا لیتا ہوں۔ مگر اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ یہ لوگ انٹرویو وغیرہ کے محتاج نہیں ہوتے۔ان کو اگر کسی چیز کی پروا ہوتی تو یہ شام کے وقت یہ خدت سرانجام دیتے۔تاکہ ان کو تمام علاقے والے دیکھتے اور خوش ہوتے۔ان کی تعریفوں کے پُل ہر گھر میں جا کر اندر اندر باندھ لیتے۔مگر ان کو تعریفیں نہیں چاہئیں ان کو کام چاہئے۔جس کو وہ خود کرتے ہیں تاکہ ا ن کو تسلی ہو۔ان کے پاس ہرقسم کے صفائی کے اوزار پڑے ہیں۔جس وقت جس اوزار کی ضرورت ہوتی ہے وہ نالی کے حساب سے باہر نکال لاتے ہیں۔پھر وہ ان سے اپنااپنا کام کرتے ہیں۔ان کو اس بات کی پروا نہیں کہ ان کو کوئی دیکھ رہا ہے۔وہ اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں۔اگر کسی گھر کا دروازہ کھلے او راس میں سے کوئی رہائشی برآمد ہو تو ہو۔یہ اس طرف دیکھتے بھی نہیں۔
اپنا مزے سے سر نیچا کئے نالی کو غور سے دیکھ دیکھ کر اپناکام کرتے ہیں۔جیسے انھیں معلوم ہی نہیں کہ یہاں اس وقت گلی میں میرے علاوہ کوئی اور بھی رہائش پذیرہے۔مجھے بہت حیرانی ہوئی تھی جب میں نے نالی میں لگائے جانے والے لمبوتر ے بیلچے کی آواز سنی۔میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ میں ان کی شخصیت اور ان کے کام کے بارے میں ایک عدد کالم تو اخبارکے سپرد کروں گا۔تاکہ ان کی شخصیت اور منصب کے بارے میں جانکاری دلا کر ان کے کام کے بارے میں خلقت عام کو آگاہی دلوا کر ترغیب دے سکوں۔کیونکہ ان کی بڑائی کو کسی نے دیکھانہیں۔مگر میں چاہتا ہوں کہ اس سے ہم لوگوں کو غیرت آئے اور ہم بھی اپنے اپنے علاقے میں اس قسم کی اور اس طرح کی اور خدمات انجام دیتے سکیں۔
بعض گلی کوچوں کے محلوں میں کمیٹیا ں قائم ہیں جو اہلِ علاقہ کے لئے ہر قسم کی خدمت انجام دیتے ہیں۔اس سلسلے میں ہماری گلی محلے میں نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس کاقیام عمل میں آنا چاہئے۔جو کسی پریشانی کے موقع پر اہلِ علاقہ کی خدمت کی سر انجام دے سکیں۔جو سر گاڑی او رپاؤں پہیہ کئے نچلے نہ بیٹھیں۔ پھر اپنی آپ مددکی فلاح کے تحت پورے علاقے میں اپنی یہ خدمات انجام دیں۔کاش ایسا ہو کہ ہمارے وہ علاقے جو ڈبلیو ایس ایس پی صفائی عملے کی پہنچ میں نہیں ہیں وہاں کے گند گریل او رکوڑا کرکٹ کو روزانہ کی بنیاد پر صاف کریں۔ان کے بارے میں یہ جانکاری بھی حاصل ہوئی کہ یہ کوڑے کے ڈھیر میں بھی گھس جاتے ہیں۔ وہاں یہ کوڑے کرکٹ کو ایک طرف لگا رہے ہوتے ہیں۔کاش کہ ہم کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔