پانی کا بحران ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے 


 وطن عزیز اس وقت بہت ہی تشویشناک قسم کے پانی کے بحران کا شکار ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ بحران متعلقہ پالیسی سازوں کی ناکامی ہے تو یہ الزام بے جا نہ ہو گا۔ کئی مرتبہ عالمی اداروں نے پاکستان میں پانی کی قلت کے بارے میں ہمیں متنبہ کیا تھا اور ایک محتاط سروے کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ 2025  میں پاکستان میں پانی کا بحران نہایت شدت اختیار کر جائے گا۔ہمیں یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمارے آ بی منصوبہ ساز پانی کی متوقع کمی پورا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔اس ضمن میں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ تربیلہ ڈیم میں تو پانی کا ذخیرہ امسال فروری میں ہی ڈیڈ لیول تک پہنچ گیا تھا۔ چشمہ بیراج میں بھی صورتحال کافی خراب ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی گنجائش 7.53 ملین ہیکٹر فٹ ہے جبکہ وہ اب گھٹ کر354000 ہیکٹرفٹ رہ گئی ہے۔ سندھ کے بیراجوں میں بھی پانی کا بحران شدید ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی قلت میں ہندوستان کی آبی دہشت گردی کا بھی بڑا ہاتھ ہے جس کا جواب ملک میں ڈیم بنا کر دیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم یہ اہم ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

بھارت پاکستان کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کر رہا ہے اور ایک عرصہ سے پاکستانی دریاؤں کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں مختلف مقامات پر ڈیم بنا رہا ہے۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم‘ دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے سندھ پر چھ نئے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ جس پر پاکستان نے اپنے تحفظات سے متعلقہ عالمی اداروں کو آگاہ کیا ہوا ہے اور پاکستان نے اپنا کیس عالمی سطح پر اٹھایا ہوا ہے۔سردست صورت حال امید افزا ہرگز نہیں ہے اور قلت آب کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔پانی کی کمی نے ملک میں تباہی مچا دی ہے۔ بوائی کے موسم میں ایک تخمینے کے مطابق اکہتر فیصد تک بحران کا سامنا کرنا ہوگا مناسب منصوبہ بندی کی صلاحیت کے نہ ہونے کی بدولت پانی کا ذخیرہ نہ ہو سکا اور کاشت دریاؤں کی مرہون منت ہوگئی جو کاشت کے موسم میں خشک ہو جاتے ہیں پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اشد ضروری ہو گئی ہے۔جس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس سلسلے میں حکومت اور حزب اختلاف کو مل کر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ یہ ہمارے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ اگر پانی نہ رہا اور ہمارے دریا بھی خشک ہوگئے تو یقینا اس کے اثرات زراعت پر مہلک ترین ہوں گے اور خدانخواستہ یہاں بھی وہی صورتحال پیش آسکتی ہے جو اس وقت افریقہ کے کئی ممالک میں ہے جہاں خشک سالی اور قلت آب سے قحط کا سامنا ہے۔یا دہے رکہ اقوام متحدہ کے اداروں نے پاکستان کو ان ممالک میں شامل کر رکھا ہے جو خشک سالی کا شکار ہیں اور جہاں پر قحط اور غذائی قلت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہیں اور جہاں گرمی کی شدت بڑھنے سے معمولات زندگی ہر سال متاثر ہوتے ہیں اس طرح پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے وسائل کا ابھی سے حل نکالنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم ایک خوشحال اور سرسبز پاکستان دے سکیں۔