عنایت اللہ فیضی
خبروں کے مطا بق الیکشن کمیشن آف پا کستان نے عام انتخا بات کیلئے بجٹ کا جو تخمینہ پیش کیا ہے اس کی رو سے الیکشن پر 47ارب روپے خرچ ہونگے 47ارب روپے میں دو بڑے ہسپتال بن سکتے ہیں اگر اعلیٰ تعلیم پر یہ رقم خر چ کی جا ئے تو چار یونیورسٹیاں بن سکتی ہیں، اگر اس رقم کو سڑ کوں کی تعمیر پر لگا یا جا ئے تو 150کلو میٹر سڑ کیں بن سکتی ہیں اگر اس رقم کو بیرونی قر ضوں کی واپسی پر خر چ کیا جا ئے تو 23کروڑ 5لا کھ ڈالر کا بیرونی قرضہ اتر سکتا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم انتخا بات پر اُ ٹھنے والے اخراجا ت کا رخ کسی اور شعبے کی طرف موڑ دیں، ہمارا ایسا مطلب ہر گز نہیں، یہ وہ رقم ہے جو ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی ضما نت دیتی ہے‘رائے دہی کی با لا دستی کی ضما نت دیتی ہے ووٹ کی عزت پر مہر تصدیق ثبت کر تی ہے عوامی حاکمیت کے تصور کو اُجا گر کر تی ہے، عوام کی رائے کو مقدم گرداننے کا ثبوت فراہم کر تی ہے دنیا کے جمہوری مما لک میں پا کستان کو سر اُٹھا کر چلنے کے قابل بنا تی ہے، قو می آزادی کے تصور کو پختہ کر تی ہے بیرونی سازش اور غیر ملکی مداخلت کے امکا نا ت کو ختم کر تی ہے اور یہ ایسے اعلیٰ وارفع مقا صد ہیں جن کیلئے 47ارب کیا قومیں 247ارب بھی خر چ کر تی ہیں۔زند ہ قومیں اپنی قومی آزادی، قومی وقار اور قومی عزت پر سمجھو تہ نہیں کر تیں،اگر انتخا بات نہ ہوئے تو اسمبلیوں کے اراکین کا انتخا ب کس طرح ہو گا؟
صدر،وزیر اعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور چیئر مین سینیٹ، ڈپٹی چیئر مین سینیٹ کا انتخا ب کیسے ہو گا وفاق اور چاروں صو بوں میں کا بینہ وزراء مشیروں اور معاونین خصو صی کی تقرری کیسے ہو گی۔ چار صوبے وزرائے اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے بغیر کیسے چلیں گے، حکومت کا ڈھا نچہ نہیں ہو گا تو حکومت کس طرح ہو گی حکومتی رٹ (Writ) کس طرح قائم ہوگی؟ یہ جو عرصہ دراز سے ترقی کا سفر جاری ہے اور ہم جوہری طاقت بن گئے ہیں تو یہ انہی افراد یعنی حکومتوں کے کئے ہوئے کام ہیں، جو ہمارے ووٹوں سے حکمران بنتے ہیں۔ ورنہ اکیلا آدمی اتنے بڑے بڑے کام انجام نہیں دے سکتا حکمران کے ساتھ ایک ٹیم ہوتی ہے اور کا میا بی یا نا کا می کا دارو مدار اُس ٹیم کی صلا حیت، قابلیت اور کا کردگی پر منحصر ہو تا ہے اس بات میں صداقت ہے کہ ہمارے ہاں مشکل سے ہی کوئی حکومت اپنا مقررہ عرصہ پورا کرتی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اسمبلیوں میں جمہوری کلچر پروان چڑ ھنے میں وقت لگے گا ایسے واقعات کے تنا ظر میں سیا سی قو توں کو مل بیٹھ کر بڑے فیصلے کر کے آئینی ترامیم کے ذریعے ان فیصلوں کو نا فذ کر نا چا ہئے‘ ایک تو انتخا بات متنا سب نما ئندگی کی بنیاد پر ہو نگے تو اس کے نتائج شاید زیادہ بہتر سامنے آئیں۔، دوسرا فیصلہ یہ ہونا چا ہئے کہ اگر پانچ سال تک انتظار نہیں ہوتا تو پھر مدت ایک سال کم کریں تاہم یہ ضمانت ہونی چاہئے کہ انتخا بات میں ہار نے والی جماعت مقررہ مدت تک انتظار کریگی ملک میں شور شرابہ اور عدم استحکام نہیں ہو گا ان فیصلوں کے بعد اگر انتخا بات پر 47ارب روپے سے زیادہ بھی لگا ئے گئے تو خسارے کا سودا نہیں ہوگا۔