اجتماعی کامیابی: اجتماعی ناکامی 


 پاکستان معاشی عدم استحکام سے گزر رہا ہے جس کا حل کوئی ایک حکومت باوجود خواہش و کوشش بھی تلاش نہیں کر سکتی کیونکہ یہ معاشی مسائل انتہائی پیچیدہ اور کثیرالجہتی ہیں جن پر قابو پانے کے لئے قومی سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز (سیاسی جماعتوں) کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان معاشی ماہرین کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے جو موجودہ پالیسیوں اور نظام پر کڑی تنقید کرتے ہیں کیونکہ ان کی کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو واقعی قابلِ غور ہیں اور ان پر توجہ دے کر معاشی استحکام کیلئے راستہ ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ملک معاشی استحکام کی طرف جاتا ہے تو یہ ہم سب کی اجتماعی کامیابی ہوگی لیکن اگر معاشی استحکام نہیں آتا تو یہ ہم سب کی اجتماعی ناکامی کہلائے گی جس کی قیمت ہر ایک پاکستانی کو ادا کرنا پڑے گی اور یہی وجہ ہے وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ”میثاقِ ِمعیشت“ کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ نواز لیگ کی جانب سے ”میثاق ِجمہوریت“ کا تصور پہلی بار سامنے نہیں آیا بلکہ اِس سے قبل بھی اِسی قسم کی تجویز سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دوہزارپندرہ میں پیش کی تھی۔ سال دوہزارسترہ کا وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی اسحاق ڈار نے میثاقِ معیشت کی ضرورت پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ ”تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر دوہزاراٹھارہ سے دوہزارتیئس تک پانچ سال کیلئے ایک مشترکہ معاشی منصوبہ تیار کرنا چاہئے۔ اُس وقت اُن کی تجویز کی کچھ لوگوں نے تعریف کی اور بہت سے لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

شہباز شریف بھی دوہزاراٹھارہ میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر ”میثاقِ ِمعیشت“ کی تجویز پیش کرچکے ہیں۔ ایک بار پھر انہوں نے یہ تجویز دی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اُن کے اِس مثبت اور انتہائی اہم نظریئے سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں جبکہ اختلاف کی گنجائش رتی بھر بھی نہیں رہی ہے! وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کر رہے ہیں لیکن ماضی کی طرح شہباز شریف کی ”میثاقِ معیشت“ کی تجویز کو رد کرنے والی سوچ بھی موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اور بالخصوص پوری سیاسی قیادت کا ملک کے معاشی استحکام کے لیے کچھ بنیادی نکات پر متحد اور متفق ہونا ہی مسائل کا حل فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان میں حکومت بدلتے ہی پالیسیوں میں جس طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں اور جیسے چلتے ہوئے منصوبوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اس سے مسائل میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔

اسی لئے وقت گزرنے کے ساتھ قومی مالیاتی ذمہ داریاں یعنی بیرونی قرضہ اور اُس پر سود مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور دیگر مسائل بھی گزشتہ نصف صدی کے دوران کئی گنا ہوچکے ہیں۔ اندریں حالات‘ سیاسی قیادت کے مابین ”میثاق ِمعیشت“ جیسے کسی بھی معاہدے سے مسائل کا حل ممکن ہے۔ معاشی اصلاحات ہی کے ذریعے پاکستان مزید قرض لینے سے خود کو روک سکتا ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ مذاکرات کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لامحالہ اضافہ کرنا پڑا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں ایک سال کی توسیع اور قرض ایک ارب ڈالر سے بڑھا کر دو ارب ڈالر کرنے کا کہا گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے فنڈز ملنے سے دیگر اداروں سے بھی فنڈز ملنا شروع ہوجائیں گے۔ ایک ارب ڈالر ورلڈ بینک سے ملیں گے۔ وفاقی وزارت خزانہ نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کو جون میں چین سے اڑھائی ارب ڈالر کا قرض ملے گا۔ دونوں ملکوں کے مابین اس تجارتی قرض کے حوالے سے مذاکرات ہوچکے ہیں اور باقاعدہ معاہدہ جون میں متوقع ہے۔ اس وقت حکومت بہت مشکل صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے اس لئے وہ کسی طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے قرضے لے کر معیشت کو سہارا دینا چاہتی ہے۔ آئی ایم ایف سے رجوع اور مزید قرض ہرگز قابلِ داد نہیں جبکہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کی بات ضرورت ہے تاکہ پاکستان آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے ادارے یا ملک کا دست نگر نہ رہے۔ اگر بار بار کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا ہے تو پھر اِس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ فرق تو صرف اسی صورت ظاہر ہوگا جب سیاسی جماعتیں معاشی اصلاحات کیلئے بھی اتحاد تشکیل دیں اور ایسی پالیسیاں یا منصوبے (حکمت ِعملیاں) تشکیل دیں جن کی مدد سے قرض جیسی دلدل میں دھنسنے اور ڈھلوان سے پھسلنے کا سلسلہ رک جائے۔