امریکہ میں خودکار آتشیں اسلحہ کی کھلے عام دستیابی، اٹھارہ سال تک کی عمر والوں کو یہ اسلحہ خریدنے کی اجازت و سہولت، سفید فام انتہا پسندی اور سفید فام آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے خیالی سازشی نظریے نے ایک دفعہ پھر وہاں کہرام مچا دیا ہے۔ چند دن قبل ٹیکساس کے ایک سکول میں داخل ہوکر 18 سالہ سلواڈور راموس نے 19 بچوں اور دو اساتذہ کو فائرنگ کر کے ہلاک کر لیا تھا۔ بعد میں سکیورٹی فورسز نے اسے ہلاک کردیا۔ اس سے دس روز قبل نیویارک کے ایک سپر مارکیٹ میں ایک سفید فام شخص نے دس افراد کو فائرنگ کرکے ماردیا تھا۔ان دونوں واقعات میں غیر سفید فام تارکین وطن کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور اس کے مرتکبین گریٹ ریپلیسمنٹ تھیوری سے متاثر ہیں جس کے مطابق سیاہ فام یا لاطینی امریکی کے غیر سفید فام تارکین وطن بیرونی سازش اور مدد کے ذریعے اپنی آبادی تیزی سے بڑھا رہے ہیں اور جلد وہ امریکہ کی سفید فام آبادی کو اقلیت میں تبدیل اور غلام بنا دیں گے۔راموس نے اپنی رائفل اور کارتوس خود مارکیٹ سے خریدے کیوں کہ امریکی سپریم کورٹ کے 2008 کے ایک فیصلے کے مطابق آئین کی دوسری ترمیم دفاعی مقصد کیلئے فرد کو آتشیں اسلحہ رکھنے کا حق دیتی ہے۔
امریکہ میں اتشیں اسلحہ کی اجازت اور ممانعت اور دوسری آئینی ترمیم کے حامی اور مخالفین دونوں موجود ہیں۔ امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی اور موجودہ صدر جو بائیڈن اسلحہ فراوانی کے مخالف ہیں جبکہ زیادہ تر ریپبلکن پارٹی، سابق صدر ٹرمپ، فاکس نیوز اور پچپن لاکھ ارکان کی نیشنل رائفل ایسوسی ایشن اس ترمیم اور عوام کے اسلحہ رکھنے کے حق میں زور وشور سے لگے ہوئے ہیں۔ٹیکساس واقعے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے پوچھا ہے کہ ہم کب بندوقوں کے وکیلوں کے سامنے کھڑے ہوں گے؟ ان واقعات کے بعد پرسوں امریکی ریاست ہاسٹن میں این آر اے کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر ٹرمپ اور ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے دعوی کیا کہ بندوق بارے سخت قوانین نافذ کرنے سے امریکہ میں عام قتل عام کے واقعات میں کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔تو کیا امریکہ جلد اپنے بچوں کو ان جیسے واقعات سے بچانے کیلئے بندوقوں کی کھلی دستیابی پر پابندی لگا سکے گا؟ بظاہر اس کے امکانات کم ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ نیویارک سپر مارکیٹ اور ٹیکساس سکولوں جیسے واقعات ہونے کے بعد این آر اے مزید پرزور انداز میں بندوق رکھنے کے حق کی وکالت کرنے لگتا ہے اور دلیل دیتا ہے کہ زیادہ بندوقیں ملک کو محفوظ بناتی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کے بندوق حاصل کرنے کی حامی ہے مگر سکولوں میں سیکورٹی گارڈ رکھنے حتی کہ طلبا اور اساتذہ تک کیلئے ہتھیار ساتھ رکھنے کی وکالت بھی دھڑلے سے کرتا ہے۔ تاہم نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن کی صدر بکی پرنگل نے اساتذہ کو مسلح کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ زیادہ بندوق زیادہ تشدد کے مترادف ہیں اس لیے آتشیں اسلحہ پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے۔این آر اے ویسے تو 1871 میں قائم ہوا مگر اس نے باقاعدہ لابنگ کیلئے قانونی شعبہ 1975 میں اور سیاسی شعبہ 1977 میں قائم کیا اور اب یہ بندوق برداری کے حق ایک بڑا، موثر اور طاقت ور گروہ ہے۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق این آر اے ہر سال تقریبا 25 کروڑ ڈالر خرچ کرتا ہے۔ یہ گن کنٹرول پر سالانہ تین ملین ڈالر کرتا ہے جس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے جبکہ ایک بہت بڑی رقم بلا ریکارڈ بھی خرچ کی جاتی ہے۔ یہ اراکین کانگریس کو بندوق رکھنے کے حوالے سے اے سے ایف درجہ بندیوں میں ڈال چکا ہے اور اس درجہ بندی کی بنیاد پر انتخابات میں ان کی مدد یا مخالفت کرتا ہے۔ٹیکساس کے اس علاقہ میں بندوق روزمرہ زندگی کا حصہ ہے،
شکار محبوب مشغلہ ہے اور اسلحے کی دکانیں بہت زیادہ ہیں۔ ٹیکساس کی ریاستی اسمبلی نے پچھلے سال بغیر لائسنس و تربیت کے کھلے عام بندوق ساتھ رکھنے کی اجازت دی تھی۔ مگر اس واقعے کے بعد یہاں بندوق کنٹرول، بندوق حاصل کرنے کی عمر اٹھارہ کے بجائے اکیس سال کرنے، خودکار بندوق کی فروخت پر پابندی اور درخواست گزاروں کے پس منظر کی مکمل چھان بین کے بعد ہی اسلحہ دینے بارے عوامی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔بندوق پر پابندی کے حامی صدر بائیڈن سے جلد سخت فیصلے کرنے، آتشیں اسلحہ کی فروخت کیلئے پس منظر تحقیقات بارے انتظامی حکم نامہ جاری کرنے اور خاص بندوق کنٹرول دفتر کھولنے پر زور دے رہے ہیں مگر صدر بائیڈن کانگریس پر ذمہ ڈاری ڈال رہے ہیں کہ وہ اس بارے سخت قانون سازی کرے۔ تاہم اکثر ریپبلکن ارکان اور چند بڑے ڈیموکریٹ ارکان کی مخالفت کا اعتراضات کی وجہ سے کانگریس جلد ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اب یا تو کانگریس میں دونوں پارٹیوں کی مفاہمت درکار ہوگی یا پھر صدر بائیڈن کو سینیٹ فِلیبسٹر کا قاعدہ، جس کے تحت سو رکنی کانگریس میں قانون سازی کیلئے ساٹھ ارکان درکار ہوتے ہیں، التوا میں ڈال کر عام اکثریت سے قانون بنانا ہوگا اور یا پھر انتظامی حکم نافذ کرنا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں نجی ملکیت میں تقریبا تیس کروڑ آتشیں اسلحہ موجود ہے۔اس گن کلچر کی ترویج میں بندوق بردار تاریخی کا بوائز، ٹومی گنوں سے مسلح مافیا کے افراد، اسلحہ کی فراوانی اور عام دستیابی، قانونی اجازت، نسل پرستی، غربت، نظام انصاف کی کمزوریوں اور پر تشدد فلموں اور ویڈیو گیمز نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ بھر میں بھاری اسلحہ رکھنے والے انتہاپسند گروہ موجود ہیں جو سفید فام برتری، سیاہ فام حقوق اور فسادی نظریات کا کھلم کھلا پرچار کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مختلف امریکی ریاستوں میں تین سو سے زیادہ انتہاپسند گروہ ہیں جن کے کل بیس ہزار مسلح اور زیادہ تر فوجی تربیت یافتہ ارکان ہیں۔گن کنٹرول کیلئے مختلف ریاستوں میں مختلف قسم کے قوانین لاگو ہیں۔ ملک میں اسلحہ کی خرید و فروخت عام ہے اور ہر سال امریکہ کے سکولوں، بازاروں، نائٹ کلبوں اور سڑکوں پر فائرنگ کے ان گنت واقعات میں زیادہ تر غریب، سیاہ فام، ایشیا نژاد، بچے، نوجوان اور خواتین نشانہ بنتی ہیں امریکی صدر اور اٹارنی جنرل نے پرتشدد جرائم میں کمی کیلئے پچھلے سال ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا جن میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ میں کمی لانا، وفاق کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کی وسائل اور ہتھیاروں میں مدد، ثبوتوں کے ساتھ کمیونٹی تشدد میں دخل اندازی، سمر پروگرامنگ میں توسیع، ملازمت کے مواقع اور جیلوں میں بند افراد کی سماجی بحالی شامل ہیں۔ ایسے چھوٹے ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کا بھی اعلان کیا جن کے سیریل نمبر نہیں اور ان کا پتہ چلانا مشکل ہوتا ہے۔