خارجہ پالیسی کا محور

وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان قابل ذکر ہے کہ پاکستان ہر شعبے میں چین کا تعاون چاہتا ہے اور یہ کہ مسائل سے نمٹنے کیلئے چینی دوستوں کی مدد چاہئے۔ ان کا یہ فیصلہ بھی قابل تعریف ہے جس میں چین کی آ ئی پیز کیلئے 50ارب جاری کئے جائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک عرصے سے نہ صرف چینی کمپنیوں کو ادائیگیو ں میں تاخیرہوئی بلکہ سی پیک کے تحت ریوالونگ اکاؤنٹ بھی نہیں کھولا گیاجس کی وجہ سے ادائیگیاں بڑھ کر 340 ارب روپے تک جا پہنچی تھیں یہ گردشی قرضوں کی ایک اور قسم ہے اور اس سے سی پیک کے اغراض ومقاصد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاشبہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ 
یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ ہم نے بھی چین کے ساتھ دوستی نبھائی ہے اور ہمیں یہ تجربہ بھی ہوا ہے کہ چین ہی ہمارا وہ دوست ہے جس نے مشکل میں ساتھ دیا۔ اس کے مقابلے میں ہم امریکہ کے بھی قریب رہے جس نے ہر مشکل میں ہماری مشکلات کو مزید بڑھایا اور ایسے حالات میں کہ جب پاکستان کو مدد کی ضرورت تھی اس نے پابندیوں سے جواب دیا۔ جہاں تک سی پیک کے تحت چین کا پاکستان سے تعاون کا تعلق ہے تو ہمیں اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ہمارے دشمن اس عظیم منصوبے کوناکام کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس منصوبے سے چین کو بے پناہ مالی فائدہ پہنچے گا پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں بھی اس سے ترقی کی کئی راہیں کھل رہی ہیں۔ہمیں پاکستان کے اندر چینی سرمایہ کاری کا کما حقہ تحفظ کرنا ہوگا۔ سویت یونین کے حصے بخرے کر نے کے بعد اب امریکہ چین کے درپے ہے اور ا س کی کوشش ہے کہ چین کی مدد سے خطے میں جو ترقی کا سفر شروع ہے اس میں رکاوٹ ڈالے۔ اس حوالے سے امریکہ سی پیک کا بھی درپردہ مخالف ہے تاہم وہ ظاہری طور پرایسا نہیں کر سکتا۔ ہمیں ہر طرح سے محتاط رہنا ہوگا۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو اس نے تو پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا اور سی پیک جیسے منصوبے سے تو وہ انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔
وہ دررپردہ کوششوں میں مصروف ہے کہ سی پیک کو اگر روک نہیں سکتا تو اس پر کام کی رفتار کو متاثر کرے۔ اب یہ ہماری حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کرتے ہوئے اس کی تکمیل کو جلد از جلد ممکن بنائے۔اب کچھ تذکرہ دو اہم واقعات کا کرتے ہیں۔ یہ دو نہایت ہی اچھی پیش رفت ہیں جو اس ملک کے عام آ دمی کی زندگی کو کافی حد تک آ سان کر رہی ہیں اور آئندہ بھی کریں گی ایک تو یہ بات خوش آئند ہے کہ صحت کارڈ پر اس صوبے میں یومیہ 1051 اوسط مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں اور حکومت اس مد میں ماہانہ 80 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔
دوسری اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان پٹرول کی جگہ گاڑی میں ایتھنول استعمال کر کے9 ارب ڈالر سالانہ بچا سکتا ہے۔یکم نومبر دوہزار بیس سے لے کر 30جون 2022تک سرکاری ہسپتالوں میں 40000مریضوں کا علاج ہوا۔ہیلتھ انصاف کارڈ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اس قسم کی طبی سہولیات دنیا کے معدودے چند ممالک ہی اپنے عوام کو پہنچا رہے ہیں اور یہ ممالک وہ ہیں کہ جو ترقی یافتہ اور مالدار ممالک ہیں ترقی پذیر اور غریب ممالک میں تو اس قسم کی کسی سکیم کا دور دور تک نشان نہیں ملتا اس ضمن میں البتہ کچھ مسائل کی بھی شکایت ہے، تاہم بحیثیت مجموعی یہ ایک مثالی پروگرام ہے جس سے بڑے پیمانے پر مریض استفادہ کرتے ہیں۔
جہاں تک ایتھنول کا تعلق ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برازیل میں 90فیصد گاڑیاں ایتھنول پر چلتی ہیں کئی عشروں سے امریکہ برطانیہ فرانس سنگاپور جنوبی کوریا پاکستان سے ہر سال ایتھنول درآمد کر رہے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ ھم سستے داموں اتھنول برآمد کرکے مہنگا پیٹرول درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق توانائی کے نئے اور ماحول دوست ذرائع سے استفادہ کیا جائے۔ پاکستان کو قدرت نے اس ضمن میں بڑی فیاضی سے نوازا ہے۔ شمسی توانائی اس حوالے سے قابل ذکر ہے۔